چنیوٹی بزنس ماڈل کے 6اہم اصول۔؟

چنیوٹی بزنس ماڈل میں پائی جانے والی خوبیاں کیا ہیں؟ کیا یہ Traitsاس برادری سے تعلق رکھنے والے ہر شخص میں موجود ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم چنیوٹ بزنس ماڈل کا خلاصہ Essanceبیان کرنا چاہیں تو کچھ مشترکہ خوبیاں ہر چنیوٹ بزنس کے اندر موجود نظر آتی ہیں۔ ان خوبیوں میں کمی یا زیادتی ضرور ہوسکتی ہے لیکن ان کے بغیر چنیوٹ ماڈل تعمیر نہیں ہوتا۔ چنیوٹ ماڈل کی بہت سی خوبیوں میں سے یہ چھے انتہائی اہم ہیں۔

1۔ یقین
2۔ ہجرت
3۔ محنت
4۔ دیانت
5۔ کفایت شعاری یا چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا
6۔ اللہ کی راہ میں دینے کی خواہش یا فیاضی

1۔یقین :
پہلی خوبی اللہ پر اور خود پہ یقین ہے۔ دوسوسال پہلے یہ لوگ چنیوٹ شہر سے اس یقین کے ساتھ نکلے کہ اب کچھ حاصل کرکے ہی واپس لوٹیں گے۔ انہیں اپنی صلاحیتوں پہ بھی یقین تھا اور اپنے اندر خوابوں پہ بھی۔ انہیں علم تھا کہ وہ ضرور کامیاب ہو ں گے۔ ناکامی ان کے لیے کوئی آپشن نہیں تھی اپنی ذات پر یقین کے ساتھ ساتھ انہیں اللہ کی رحمت پہ بھی پورا بھروسہ تھا۔ اصل میں خود پر اور اللہ پر اسی یقین نے انہیں بے سروسرمانی کے باوجود اگلی منزل کا راستہ دکھایا۔ مجھے خود پر مکمل یقین ہے لیکن جب ٹھوکر لگتی ہے تو کوئی مجھے گرنے سے بچاتا ہے۔ میں جب بلندی سے گرتا ہوں تو کوئی تھام لیتا ہے میں ہارتا ہوں تو کوئی مجھے دلاسا دیتا ہے۔ کوئی تو ہے جو میرا سہارا بنتا ہے اور مجھے اکیلا نہیں چھوڑتا یہ وہ فقرے ہیں جو مختلف انداز میں ہر شخص نے دہرائے۔

ہجرت:
دوسری خوبی ہجرت ہے گھر بار چھوڑنا کسی اجنبی سرزمین کا رخ اختیار کرنا غیر یقینی مستقبل کا سفر اگر یہ لوگ گھرنہ چھوڑتے تو آج اس مقام پر نہ ہوتے۔ جس دور میں سڑک اور ریل بھی نہ تھی یہ لوگ اونٹوں پہ سفر کرتے رہے۔ ریل کی پٹڑی بچھی تو جس بڑے شہر کی طرف جانے والی گاڑی پہلے آئی یہ اسی میں بیٹھ گئے۔ لاہور، دہلی، بمبیئی، کلکتہ،مدراس، ڈھاکہ، چٹاگانگ، کراچی اور پھر نیپال، جاپان اور یورپ۔ ہجرت میں برکت بھی ہے اور عظمت بھی کسی بڑے مقصد کے لیے گھر سے نکلنا ہمیشہ کامیابی سے ہم کنار کرتا ہے۔ چنیوٹی شیخوں کے سامنے مسلمان عرب تاجروں کی وہ مثالیں بھی تھیں جو انہوں نے کئی سو برس پہلے قائم کیں۔
وہ سرزمین عر ب اور وسطی ایشیاء سے نکلے اور جنوب مشرقی ایشیاء سے ہوتے ہوئے جزائر غرب الہند اور نہ جانے کہاں کہاں تک جاپہنچے۔ چنیوٹی شیخوں کی ہجرت بھی اسی روایت کا تسلسل تھی جو انہیں کامیابی سے ہمکنار کرگئی۔

محنت:
ہجرت کے بعد ان کے ترکش کا اگلا تیر ان کی محنت تھی۔ د ن رات صبح و شام محنت ہی محنت۔ محنت کی عادت اپنانے کے بعد کوئی کام بھی ان کے لئے مشکل نہ رہا۔ معمولی خوانچہ فروشی بھی انہوں نے دل لگا کر کی۔ محنت کی عظمت پہ ایسا یقین بہت کم نظر آتا ہے کچھ عرصہ بعد جب دولت مہربان ہونے لگی تو بھی محنت کا دامن ان کے ہاتھ سے نہ چھوٹا۔ ہمارے لیے کوئی کام چھوٹا یا بڑا نہیں کام صرف کام ہے اور ہمیں کام کی عظمت پہ پورا یقین ہے۔ کاروبار سے دیوانہ وار محبت کے بغیر کوئی شخص کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہ تھا وہ اصول جو شیخ برادری کے بزرگوں نے کبھی فراموش نہ کیا۔

دیانت:
چوتھی خوبی دیانت صرف یہی نہیں کہ آپ سچ بولتے ہیں یا ناپ تول میں کمی نہیں کرتے بلکہ ایفائے عہد، اخلاص، نیک نیتی یہ سب دیانت کے زمرہ میں شامل ہے۔ دیانت کوکسی معروضی اشاریے یا Objective Criterionپر ناپنا ناممکن نہیں۔ اس کا تعلق انسان کی اپنی ذات اور اپنے ضمیر سے ہے اور اس امر کا فیصلہ بھی انسان خود ہی کرتا ہے کہ وہ دیانت کے کس معیار پہ کھڑا ہے۔ اپنی ذات کے کٹہرے میں کھڑا ہوکرا حتساب کی چھلنی سے گذرنا ہی دیانت کا اصل امتحان ہے۔ چنیوٹی انٹر پرنیورز کی اکثریت نے خود کو دیانت دار قرار دیا۔ ان کے اولین بزرگوں کی دیانت تو واقعی ضرب المثل تھی اس دعویٰ میں کمی پیشی تو ہوسکتی ہے لیکن اس دعویٰ کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ ان بے پایاں ترقی کے پسِ منظر میں دیانت کی کئی ایک مثالیں جھلکتی ہیں جو اس امر کا اعلان ہیں کہ دیانت کا اصول انسان کو کامیابی کی کنتی بڑی منزل پہ لاسکتا ہے۔

کفایت شعاری یاچادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا:
کفایت شعاری اور بچت ضرورت کے مطابق وسائل کے دانش مندانہ استعمال کا نام ہے فضول خرچ کفایت شعاری اور کنجوس میں بہت فرق ہے۔ فضول خرچ ضرورت کے بغیر خرچتا ہے۔ کفایت شعار صرف ضرورت پہ خرچتا ہے اور کنجوس ضرورت پہ بھی نہیں خرچتا۔ کاروبار میں اضافے کے لیے انہیں بچت ہی سے کام لینا تھا جو رقم یہ کاروبار سے کماتے اسے کسی اور جگہ استعمال نہ کرتے۔ میانہ روی کفایت شعاری اور چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا۔ نفع کو پھر سے کاروبار میں لگا دینا یہ ایک بڑا کارآمد اصول ہے اسی اصول کی بدولت انہوں نے کاروبار کو وسعت دی اور نئی نئی منزلیں طے کیں۔

اللہ کی راہ میں دینے کی خواہش یا فیاضی:
اللہ کی راہ میں دینے کی عادت چنیوٹ ماڈل کی ایک اہم خوبی ہے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے تو اللہ کی راہ میں اتنا کچھ دیا کہ مثال ڈھونڈنا بھی مشکل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دینے کی یہی عادت ہماری مزید کامیابیوں کی راہ ہموار کرگئی۔ ہمیں جب بھی گھاٹے یا نقصان کا اندیشہ ہو ہم اللہ کی راہ میں دینے لگتے ہیں اورپھر سب کچھ واپس لوٹ آتا ہے۔ ہم نے آج تک کسی دینے والے کوغریب ہوتے ہوئے نہیں دیکھا مختلف انداز میں یہ بات بار بار سننے کو ملی۔

یاد رہے یقین، ہجرت، محنت، کفایت شعار اور خیرات یہی چنیوٹی بزنس ماڈل ہے۔ یہی چنیوٹی انٹر پرنیور شب کی اصل روح ہے چنیوٹی شیخوں کے متعلق ایک اور بات مشہور ہے کہ چنیوٹی شیخ اپنے خاندانوں پہ خرچ کرتے ہیں یعنی کہ خاندان میں کوئی کمزور ہے تو اسے مالی معاونت کرکے اسے بھی اپنے برابر لا کھڑا کرتے ہیں یہی وجہ ہے آج شیخ برادری پاکستان کی سب سے امیر ترین برادری ہے۔ یہ لوگ لوگو ں پہ خرچ کرتے ہیں اور اپنے خونی رشتوں کو ہر طرح سے سپورٹ کرتے ہیں۔
فت پاتھ سے اٹھ کر ارب پتی بننا مشکل نہیں لیکن کیا ہم اس کے لیے ایسی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں؟اس سوال کے مثبت جواب میں ہی ہماری ترقی کا راز پہنا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں