گاہکوں اور ملازموں سے حسن سلوک کرنے والے آج پاکستان کے سب سے بڑے کاروباری لوگ کیسے بن گئے۔؟

”دوسرے کے ساتھ وہی سلوک کرو جیسا سلوک تم چاہتے ہو تمہارے ساتھ کیاجائے “
زندگی کا یہ اہم اصول ایک حدیث مبارک بھی ہے۔گھر بازار گلی کوچہ اور کاروبار ہر جگہ اس اصول کو اپنا کر ایک بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔کیا ہم چاہیں گے کہ ہمارے ساتھ برا سلوک ہو ہمیں گالی دی جائے ہماری غذا میں ملاوٹ ہو یا ہمارا سودا کم تولا جائے۔ اس کا ایک راستہ یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ بھی ایسا سلوک روا نہ رکھیں۔ برائی برائی کو جنم دیتی ہے اور نیکی سے نیکی جنم لیتی ہے کر بھلا ہوبھلا انت بھلے کا یہ اصول ہمارے بزرگوں نے اپنایا اور انہیں اس کا پھل مل گیا۔
چنیوٹ بزنس کی ایک خوبی ملازمین سے حسن سلوک بھی ہے ان کی ملوں، فیکٹریوں اور کارخانوں میں لاکھوں افراد ملازمت کرتے ہیں ہم اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو مزدور نہیں ساتھی سمجھتے ہیں۔ ہم نے زندگی کا آغاز خود محنت سے کیا ہمیں علم ہے کہ محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے ہماری طرف سے ان کے معاوضہ میں شاید کوئی کمی رہ جاتی ہو لیکن ہم نے ان کی عزت نفس کا ہمیشہ خیال رکھا ہے ہم ان کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جیسا سلوک ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں۔ کالونی ٹیکسٹائل ملز اور کالونی وولن ملز جب (1952)میں تعمیر ہوئیں تو یہاں نو ہزار سے زاہد ملازمین کام کرتے تھے۔ یہ مل خوشیوں کا ایک جزیرہ تھا چودہ فٹ بلند اور چھ میل دائرہ کی فصیل میں ایک اور ہی دنیا آباد کی گئی۔ نو ہولز (Holes)کا گالف کورس پولو گراونڈ ٹینس کے آٹھ کورٹس، ڈرامیٹک کلب، آفیسرز کلب، پندرہ سو طلبا و طالبات کے لیے دو سکول مکمل طور پر مفت تعلیم خریدوفروخت کے لیے مارکیٹ 18بیڈز پر مشتمل فری ہسپتال۔ کالونی ملز کی قومی سطح کی کرکٹ، فٹ بال، والی بال اور کبڈی کی ٹیمیں تھیں۔ سالانہ تقریبات میں بین الاقوامی فنکار اور کھلاڑی شریک ہوتے بچیوں اور عورتوں کے لیے سلائی،کڑھائی اور کشیدہ کاری کا تربیتی مرکز۔ اس دنیا کو بہت محنت سے بسایا گیا تھا۔ مزدورں اور مالکان کے مابین نفرت تو بہت بعد میں پیدا کی گئی۔ کالونی گروپ کے بانی شیخ محمد اسماعیل ملازمین سے بہترین سلوک روا رکھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ملازم مخصوص مدت تک محنت اور دیانت سے کام کرے تو پھر اسے ملازمت سے نہیں نکالنا چاہیے۔1941ء سے پہلے ملز میں بونس دینے کا تصور نہ تھا۔ اس کام کا آغاز محمد اسماعیل سے منسوب کیا جاتا ہے بعض چنیوٹی گروپ اپنے ورکرز کو سال میں دو دو یا تین تین بونس دیتے ہیں۔ حاجی انعام الہی اثر کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے بیسیوں ملازمین کو مکان بنا کردئیے ان کے بچوں اور بچیوں کی شادیاں کیں۔ یہ سب باقاعدہ تنخواہ سے ہٹ کرہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملازمین محنت، جان فشانی اور ایمانداری سے کام کرتے ہیں۔ ہماری ملوں اور کاروبا ر پر کا م کرنے والے کئی افراد اب خود کاروباری بن چکے ہیں۔ ہم اس پہ بھی فخر کرتے ہیں کہ کوئی ہم سے کام سیکھے اور پھر خود اپنا نام بنائے۔ رزق تو ہر شخص کا اپنا نصیب ہے ہماری مدد سے اگر وہ آگے بڑ ھ جائے تو ہمیں اور کیا چاہیے۔ بہت سے متوسط چنیوٹی گھرانے اپنے بچوں کو کام سیکھنے کے لیے کام یاب افرا د کے ساتھ منسلک کردیتے ہیں جو انہیں بہت توجہ اورمحنت سے کاروبار کے گر سیکھاتے ہیں۔
حسنِ سلوک کو محض کاروباری وطیرہ نہیں بلکہ انسانی شخصیت کا حصہ ہونا چاہیے۔ میٹھا بول بہت سے دروازے کھول دیتا ہے کسی سے کیا گیا اچھا سلوک کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ دوکان اور گاہک کے رشتہ میں توخوش اخلاقی کی اور بھی اہمیت ہے یہ بات درست ہے کہ جو کچھ ہم گھر اور سکول میں سیکھتے ہیں وہ بازار میں کام آتا ہے۔ ہم ان اصولوں کواپنا کر ہی ایک اچھا معاشرہ بناسکتے ہیں۔
دنیا بھر میں کسی بھی بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور میں چلے جائیں خوش اخلاقی کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا آپ کچھ بھی نہ خرید و پھر بھی سیلز مین کے ماتھے پر شکن نہ آئے گی۔ اس کا مقصد گاہک کا دل جیتنا ہوتا ہے گاہک کو بہر حال کچھ نہ کچھ تو خریدنا ہے آج نہیں تو کل وہ پھر سے واپس آئیگا انکساری اور خوش مزاجی چنیوٹی کاروبار کا وطیرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے قبل چنیوٹی شیخ برادری نے اسی رویہ کو اپنا کر آج نہ صر ف پاکستان بلکہ براعظم ایشیاء میں ان کے کاروبار کا تذکرہ ہوتا ہے اس شیخ برادری نے فیصل آباد کو دنیا کا دوسرا بڑا انڈسٹریل شہر بنایا انہوں نے خود بھی کمایا اور جو ان کے ساتھ وابستہ (مزدور) تھے ان کو بھی اتنا مضبوط کیا کہ آج فیصل آباد میں 30فیصد ملیں انہیں مزدوروں کی ہیں جن کی پچھلی دو نسلیں شیخ برادری کے ہاں ملازمت کرتے تھے کیونکہ حسن سلوک وہ عمل ہے جس سے آپ کے کاروبار میں وسعت اور برکت پیدا ہوتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں