گوادر کی تاریخی اہمیت !

گوادر کے تاریخی شاہی بازار میں داخل ہوتے ہی دکانیں اور پرانے ڈیزائن میں تعمیر کردہ گھر قطاردر قطار نظر آتے ہیں۔ یہ شاید گوادر کا واحد علاقہ ہے جہاں گھر خاصے نزدیک نزدیک بنے ہوئے ہیں تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے متعدد جگہوں پر حلوائی، چائے بنانے والوں کے ڈھابے اور تندور دکھائی دیتے ہیں۔ انہی تنگ گلیوں میں تھوڑا اور آگے بڑھیں تو برصغیر کی تقسیم سے پہلے کا بنا ہو ا ایک پرانا مندر نظرآتا ہے جو اب اس قدر مخدوش ہوچکا ہے کہ علاقہ مکینوں کے لیے بھی اسے شناخت کرنے کی واحد نشانی شاید اس کے مرکزی دروازے کے اطراف دئیے رکھے جانے والے طاق ہیں مگر ایک عمارت دور سے ہی نظر آجاتی ہے اور وہ ہے اسماعیلی برادری کا جماعت خانہ جسے کمیونٹی سنٹر اور عبادت گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
گوادر کی تاریخ دیکھیں تو گوادر پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ضلع مکران میں واقع ایک ساحلی قصبہ تھا۔ یہ قصبہ جو اب ایک شہر کی صورت اختیار کررہا ہے، مصنف شہاب الدین اے گوادری اپنی کتاب گوہر گوادر میں لکھتے ہیں کہ قصبے کے تینوں اطراف میں سمندر ہے جبکہ شمال میں یہ خشکی سے ملا ہوا ہے۔ گوادر کے مشرق میں سمندر کے حصے کو دیمی ز د اور مغربی حصے کو ”پدی زد“ کہتے ہیں جنوب میں بحیرہ عرب کے کنارے جو پہاڑی ہے وہ ”کوہ ِ باتیل“ کے نام سے جانی جاتی ہے شمال مشرق میں واقع پہاڑی کو ”کوہ مہدی“ کہتے ہیں جبکہ اس کے مشرق میں ایک اور پہاڑی کو ’کوہِ سر‘ کہتے ہیں کوہ سر کے پاس ہی سر بندن نامی بستی واقع ہے۔
گوادر کو محققین اور مصنف اپنی تحریروں میں ایک قدیم بستی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جبکہ شہر کی ایک خستہ اور بغیر گنبد والی عمارت پر 1468ء کے آثار کندہ ہیں لیکن یہ نہیں معلوم کہ اس عمارت کی کیا حیثیت ہے اور یہ کس کام کے لئے استعمال ہوتی تھی۔ مورخین گوادر کے بارے میں کہتے ہیں کہ 325قبل مسیح میں سکندر اعظم ہندوستان سے واپسی پر اپنی فوج کے ہمراہ مکران سے گوادر اور گوادر سے گزرتے ہوئے ایران کی طرف بڑھے تھے لیکن گوادری اپنی کتاب میں کہتے ہیں کہ گوادر کی تاریخ کے حوالے سے مستند حالات سولھویں صدی عیسوی میں پرتگالی حملے کے بعد سے ملتے ہیں۔ پرتگالیوں کی تاریخ میں گوادر کا نام ”گوادیل“ بتایا گیا ہے۔ اسماعیلی برادری کے بارے میں شہاب الدین گوادری لکھتے ہیں کہ وہ اٹھارویں صدری کے تیسرے عشرے سے یہاں آباد ہیں۔ گوادر سے تعلق رکھتے تھے: تاہم لسبیلہ سے بھی کافی تعداد میں اسماعیلی یہاں آکر آباد ہوئے جبکہ گنتی کے چند خاندان ایران (بندر عباس اور لنگا) اور کاٹھیا واڑ سے آکر یہاں آباد ہوئے لیکن ثقافتی لحاظ سے اس برادری پر سندھ کا اثر نمایاں رہا اور ان کی زبان میں بھی سندھی کچی کی ملاوٹ تھی جبکہ مقامی بلوچی زبان کے لہبے کا اثر بھی موجود ہے۔ حالانکہ اس وقت سیاسی طور پر سلطان مسقط کی حکومت تھی لیکن اسماعیلی جماعت نے برطانوی رعایا بن کر تاج برطانیہ کے زیر نگیں رہنا زیادہ مناسب سمجھا۔
شہاب الدین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ قدیم زمانے میں عربوں اور ہندوستانیو ں کے درمیان تجارتی کاروبار ہوتا رہا ہے سندھ اور کچھ کے علاقے کے کئی اسماعیلی تاجر خلیج فارس سے اور عراق کی بندر گاہوں کے ذریعے تجارت کرتے تھے۔ وہ ان علاقوں میں سمندری کشتیوں کے ذریعے آتے تھے۔ جبکہ برصغیر کی تقسیم سے پہلے ہندوستان کا زیادہ تر کاروبار خلیج کے علاقوں کی تقسیم سے پہلے ہندوستان کا زیادہ تر کاروبار خلیج کے علاقوں اور زنزیبار سے ہوتا تھا۔ خلیج کے دہانے پر ہونے کی وجہ سے گوادر سے آنے اور جانے والی تمام بحری کشتیاں اور جہاز یہاں آکر رکتے تھے۔
2005ء میں جب گوادر کا پہلا ماسٹر پلان سامنے آیا تھا تب شاہی بازار سمیت گوادر کی جتنی بھی پرانی بستیاں تھیں ان علاقوں کو ختم کر کے گوادر رپورٹ کا حصہ بنانے کا منصوبہ بنایاگیا تھا۔ 2019ء میں مقامی ادارے آر سی ڈی سی نے اپنے سالانہ کتب میلے کا اہم موضوع شاہی بازار رکھا۔ تب صوبائی حکومت کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی کہ اس علاقے اور یہاں پر موجود مقامات کی تزہین کاکام شروع کیا جائے گا۔ پھر 2020کے اوخر میں جب گوادر کا نیا ماسٹر پلان میں شاہی بازار کی تزہین بھی شامل ہے، لیکن اب تک اس حوالے سے کوئی خاص پیشرفت نظر نہیں آرہی۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی ایک سالانہ رپورٹ میں علاقے کو مزید بہتر کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ شاہی بازار کی خصوصیت یہاں پررہنے والے مختلف مذاہب کے لوگ اور بولنے والی مختلف زبانیں ہیں۔ اس کا اندازہ یہاں پر موجود مندر اور جماعت خانے سے لگایا جاسکتا ہے کہ کتنی منفرد برادریاں یہاں آباد رہی ہیں۔ اس وقت یہاں سو میں سے دس دکانیں فعال ہیں تو سے بہتر کرنا بہت ضروری ہے۔
گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے بعد اس شہر کو عالمی شہرت حاصل ہوچکی ہے۔ صرف چند دہائی پہلے تک اس شہر کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ آج یہ شہر پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی توجہ حاصل کرچکا ے۔ گوادر”گہرے پانیوں کیاایک قدرتی بندرگاہ تھی جو قدرت نے یقینا تحفے کے طور پر پاکستان کو دی“۔ پاکستان نے چین کی مدد سے اس بندگارہ کاکو تیزی سے مکمل کیااور سی پیک کی بدولت یہ علاقہ ترقی خوشحالی کی منازل تیزی سے طے کررہا ہے۔ گوادر میں ایک عالمی معیار کا سٹیڈیم تعمیر کیا گیا ہے۔ جو تکمیل کے آخری مراحل میں ہے یہ علاقہ جو بظاہر دنیا کی نظروں سے اوجھل تھا آج تجارتی سرگرمیوں کے حوالے سے پوری دنیا میں اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ گوادرکی ترقی کی دیکھ کر اب دنیا بخوبی سمجھتی ہے کہ پاکستان کا مستقبل حقیقی معنوں میں روشن اور تانباک ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں