جزیرہ عرب جغرافیائی، مذہبی، سیاسی اور معاشرتی حالات؟

جزیرہ عرب:
عرب کا ملک ایک جزیرہ نما ہے اس کے تین طرف پانی ہے یعنی مشرق میں خلیج فارس، جنوب میں بحرہ عرب، مغرب میں بحریہ احمر (بحرہ کلزم) اور شمال میں عراق اور شام کے ملک ہیں۔ لیکن عرب اپنے ملک کو جزیرہ عرب کہتے ہیں جزیرہ عرب پاکستان کے مغرب میں واقع ہے اس کا اکثر حصہ ریگستان اور پہاڑ ہے پہاڑوں کی بعض چوٹیاں دس ہزار فٹ تک بلند ہیں ملک کا درمیانی حصہ خشک ہونے کی وجہ سے پنجر اور غیر آباد ہے۔ البتہ اس کے کنارے اور ساحلی علاقے سرسبز اور شاداب ہیں اور انھی علاقوں میں اکثر لوگ آباد ہیں۔
جزیرہ عرب کا رقبہ دس لاکھ مربع میل ہے حجاز، یمن، حضر، موت، عمان، احسا اور نجد اس کے مشہور صوبے ہیں۔ حجاز کا صوبہ سب سے زیادہ مشہور ہے کیونکہ اسی صوبے میں حضرت رسول اکرم ﷺ تشریف لائے تھے۔ یہ صوبہ جزیرہ عرب کے شمال مغرب میں بحیرہ احمر کے ساتھ ساتھ پھیلا ہوا ہے۔ اس صوبے میں دو بندر گائیں ہیں جدہ او ر ینبع، حجاز کے مشہور شہروں میں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور طائف خاص طور پر قابل ذکر ہیں.
مدینہ منورہ کا اصل نام یثرب تھا۔ یہ شہر مکہ کے شمال میں تقریباً دو سو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ احد پہاڑ مدینہ کے شمال میں ہے حضرت اکرم ﷺ نے ہجرت کے بعد اسی شہر میں سکونت اختیار فرمائی۔ آپ ﷺ کی مسجد اور روضہ مبارکہ اسی شہر میں ہیں۔

آب وہوا اور پیداوار:
جزیرہ عرب کی آب وہوا گرم خشک ہے۔بارش بہت کم ہوتی ہے۔ دن کے وقت سخت گرمی پڑتی ہے اور شدت کی گرمی میں بادِ سموم چلتی ہے۔
یہاں کا مشہور پھل کھجور ہے۔کہیں کہیں باجرہ، اور گہیوں بھی پیدا ہوتے ہیں طائف کے پھلوں میں انار اور انگور بہت مشہور اور لذیذ ہیں۔
عربوں کے پالتو جانوروں میں گھوڑا، اونٹ اور بھیڑ بکریاں زیادہ مشہور ہیں لیکن اونٹ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس پر سوار ہوکر عرب بے آب وگیاہ صحراوں کو طے کرتے تھے۔ اونٹوں کا گوشت کھاتے اور دودھ پیتے تھے۔

باشندے:
جزیرہ عرب کے باشندے دو طرح کے ہیں۔
1۔ شہروں اور گاوں میں رہنے والے حضری کہلاتے ہیں حضری لوگ عام طور پر تجارت، کھیتی باڑی یا صنعت و حرفت کے ذریعے پیٹ پالتے ہیں۔
2۔ صحرا اور بادیہ میں رہنے والے بدوی کہلاتے ہیں یہ لوگ اونٹ اور بھیڑ بکریاں پال کر گزارہ کرتے ہیں۔ بدو لوگ کھانے پینے کی چیزوں کے لیے ادھر اُدھر پھرتے رہتے ہیں۔ جہاں کھانے پینے کی چیزیں مل گئیں وہاں خیمے لگالیے اور جب ختم ہوگئیں تو دوسری جگہ چل دئیے۔ماہرین نسب نے عربوں کو دو گروہوں یعنی شمال عربوں اور جنوبی عربوں میں تقسیم کیا ہے۔ نیز کہا جاتا ہے کہ شمالی عرب حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد ہیں اور عدنانی کہلاتے ہیں اور جنوبی عرب قحطانی کہلاتے ہیں۔ پھر عدنانیوں کی دو شاخیں بتائی گئی ہیں۔ ربیعہ اور مضر یہ سب چھوٹے بڑے قبائل ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتے تھے۔ خوراک کی قلت اور اقتصادی زبوں حالی کی وجہ سے عربوں میں جنگ و جدال کی عادت پیدا ہوگئی تھی۔
قبیلے کے سب افراد اپنے سردار کا حکم مانتے تھے۔
قبائلی زندگی میں عربوں میں خاندانی اتحاد اور یکجیتی پیدا کردی تھی۔خون او ر نسب اتفاق اور اتحاد کا بڑا ذریعہ تھا۔
ہر شخص کا فرض ہوتا تھا کہ اپنے خاندان اور قبیلے کی عزت و ناموس کی حفاظت کرے۔قبیلے کا سردار شیخ کہلاتا تھا اس کی رائے قابل قدر او ر قطعی سمجھی جاتی تھی۔ بعض اوقات سردار قبیلہ کو بھی عوام کے سامنے جھکنا پڑتا تھا۔ قبیلے کا سردار امن کے زمانے میں اپنے علاقے کا بادشاہ ہوتا تھا اور جنگ کے زمانےمیں سپہ سالار تلوار، نیزہ اور تیر عربوں کے مشہور ہتھیار تھے۔

عربی زبا ن:
عربی زبان دنیاکی قدیم ترین زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔ عربوں کو اپنی زبان کی فصاحت و بلاغت پر اتنا ناز تھا کہ وہ اس کے مقابلے پرتمام دنیا کو عجمی یعنی بے زبان اور گونگا سمجھتے تھے۔ عربی زبان میں ایک ایک چیز کے لیے بہت الفاظ اور نام ہیں۔ نیز ایک ہی لفظ کئی معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس وجہ سے زبان بہت وسیع ہے دوسری زبانوں کے مقابلے پر اس کے صیغے بھی چودہ ہیں۔

شعر و شاعری:
شعر وشاعری عربوں کی گھٹی میں تھی۔ شاید ہی کوئی ایسا شخص نظر آئے جو شعر گوئی کا ذوق نہ رکھتا ہو یا جسے شعر وشاعری سے شغف نہ ہو۔ عربوں کے نزدیک شاعر اپنے قبیلے کی عزت و ناموس کا محافظ و نگران ہوتا تھا۔ شاعر اپنا اور اپنے خاندان کا نسب شعروں کے ذریعے محفوظ کرلیتا تھا۔ وہ اپنے خاندان کے جنگی کارناموں کو شاعری کے ذریعے دوام بخشتا اور اپنی قوم کی بہادری، مہمان نوازی، سخاوت اور دوسری خاندانی خوبیوں کا ذکر کرکے اپنے قبیلے کے نام کو روشن کرتا۔ عربی شاعری کی وسعت اور ہر دلعزیز کا یہ حال ہے کہ زمانہ جاہلیت کے ہزاروں شاعروں کے نام اور ان کا کلام اب تک محفوظ ہے۔عربی کا دستور تھا کہ حج کے موسم یں دینی اجتماعی اور عکاظ کے قومی میلے کے موقع پر شاعر ادبی محفلیں جماتے۔یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی میل ملاپ کے باعث دینی افکار و خیالات بھی قدیم عربی شاعری میں پائے جاتے ہیں۔

مذہبی حالت:
اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے زمانہ جاہلیت میں جزیرہ عرب کے باشندوں کی اکثریت بت پرست تھی۔ بت پرستی کی داغ بیل ایک شخص ”عمرو بن لحی“ نے ڈالی تھی۔ وہ ملک شام سے ھبل نامی ایک بت لایا جسے کعبہ کے پاس نصب کردیا۔ بس پھر کیا تھا مدتوں کی بھٹکی ہوئی اور علم وحلم سے محروم قوم نے بت پرستی کو اپنا شعار بنا لیا اور اسی میں نجات سمجھی۔
ہر قبیلے کا بت جدا تھا قریش کا سب سے بڑا بت ھبل تھا جو انسانی شکل و صورت کا اور عقیق احمر کا بنا ہوا تھا۔ بیت اللہ شریف میں جسے حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمعیل ؑ نے ایک خدا کی عبادت کے لیے تعمیر کیا تھا 360بت رکھے ہوئے تھے۔
ایک بت کا نام منات تھا جو مکے اور مدینے کے درمیان ساحل سمندر پر نصب کیا گیا تھا۔ قبیلہ، اوس، خزرج اور ازد کے لوگ اس کی عبادت کرتے تھے۔
طائف میں ایک بت تھا جسے لات کہتے تھے یہ مربع شکل کا پتھر تھا۔بنو ثقیف اس کے پجاری اور متولی تھے اسی طرح ”العزای“ بھی بڑا مشہور بت تھا۔
بت پرستوں کے علاوہ جزیرہ عرب میں صائبین بھی موجود تھے یہ لوگ چاند، سورج اور ستاروں کی پرستش کرتے تھے۔
عرب میں چند لوگ ایسے بھی موجود تھے جو توحید کے قائل تھے ان کو ”حنفا“ کہتے تھے یہ لوگ حضرت ابراہیم ؑ کی تعلیمات کے پابند تھے اور شرک اور دوسری بری رسموں سے اجتناب کرتے تھے۔

سیاسی حالت:
ظہور اسلام کے وقت جزیرہ عرب میں مروجہ طرز کا کوئی باقاعدہ نظام حکومت موجود نہ تھا جھگڑوں کے فیصلے کے لیے کوئی عدالت نہ تھی۔ امن قائم رکھنے کے لیے پولیس کا محکمہ نہ تھا اور بیرونی حملوں کی روک تھام کے لیے کوئی فوج بھی نہ تھی۔عربوں کے ہاں اپنا کوئی سکہ اور ٹکسال بھی موجود نہ تھا۔ جزیرہ عرب کے باشندے مختلف قبیلوں میں منقسم تھے ہرایک قبیلے کا اپنا اپنا سردار ہوتا تھا سردار کا انتخاب کرتے وقت اس کی عمر،اثر ورسوخ، شخصی وقار کا احترام، دولت کی کثرت اور ذاتی اقتدار و جاہت کو مدنظر رکھا جاتا تھا۔

معاشرتی حالت:
زمانہ جاہلیت میں عربوں کے قومی اخلاق میں سخاوت و فیاضی، شجاعت و بہادری، عزت،نفس،خاندانی وقار، جذبہ، حریت، وفاداری اور ایفائے عہد کے اوصاف بڑے نمایاں ہیں۔ جغرافیائی حالات نے عربوں میں سخاوت اور فیاضی کوٹ کوٹ کر بھردی تھی۔ اہل ثروت اور دولت مند طبقہ کا اخلاق اور قومی فرض ہوتا تھا کہ مہمانوں کی خاطر تواضع کرے۔ عربوں کی وفاداری بھی ضرب المثل تھی۔ وہ اپنے خاندان اور قبیلے کے بڑے وفادار تھے آپس میں کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو،عرب ایک دوسرے کا ساتھ نہ چھوڑتے اگر مصیبت کے وقت اکثریت غلط راہ اختیار کرلیتی تو دانش مند لوگ بلکہ سرداران قبیلہ وفاداری کی خاطر قوم کا ساتھ دیتے، خواہ جان ہی دینی پڑے۔
عرب وعدے کے بڑے پکے تھے ایفائے عہد کی خاطر جان یا عزیز سے عزیز چیز قربان کردینا ان کے لیے معمولی بات تھی ایک دفعہ وعدہ کرلیتے تو پھر اپنیالفاظ سے کبھی نہ پھرتے سمو ال بن عادیا ء کا نام ایفائے عہد کے لیے ضرب المثل بن گیا ہے۔ بد عہدی اور وعدہ خلافی عربوں کے ہاں بڑا عیب سمجھا جاتا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں