اب آپ چھوٹی نہیں بڑی گاڑی کے مالک بھی بن سکتے ہیں۔

چیئرمین ایسوی ایشن موٹر ز ڈیلر ایم ایچ شہزاد۔
گاڑیوں کے حوالے سے ہم نے وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب کو ایک تجویز دی ہے مگر جیسے ہی فنانس ایکٹ آئے گا ساری بات اس میں کلیئر ہوگی اگر کلیئرنس مل گئی تو ایک اندازے کے مطابق 85ہزار سے لے کر ڈیڈھ لاکھ روپے تک مختلف گاڑیوں کی قیمتوں میں فرق آئے گا۔یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ جو ڈیڈھ لاکھ روپے تک کا فائدہ ہوگا یہ کمپنیوں کی جانب سے نہیں بلکہ یہ وہ ریونیو ہے جو حکومت گاڑیوں کی کمپنیوں سے ٹیکس کی صور ت میں لے رہی تھی کمپنیوں کی جانب سے وہی قیمتیں ہیں جو پہلے تھیں جبکہ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ جو گاڑیاں باہر سے امپورٹ ہورہی ہیں ان کو ڈائرکٹ امپورٹ کرتی تاکہ ایک فضا قائم ہوتی اور ایک صحت مند مقابلہ ہوتا پرانے اسمبلڈ ہو یا نئے سب اس ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ پچھلے اسملبڈتو گزشتہ چالیس سالوں سے اس ملک کو نوچ رہے ہیں یہ اتنا بڑا مافیا ہے کہ ان پر آج تک کسی حکومت نے ہاتھ نہیں ڈالا موجودہ حکومت نے بھی اس مافیا پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے اپنے ٹیکسز کم کیے ہیں جس وجہ سے گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی آئی ہے۔

آج ہمارے ملک کو سالانہ دس لاکھ گاڑیوں کی ضرورت ہے اسمبلڈ سالانہ پونے دو لاکھ کے قریب گاڑیاں اسمبلڈ کررہے ہیں کیونکہ ہم مینو فیکچرز تو ہیں نہیں باہرسے منگوائی گئی گاڑیوں کو یہاں جوڑا جاتا ہے اور اس کے بعد پھر مہنگے داموں ان گاڑیوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے لوگ پرانی گاڑیاں خریدنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کیونکہ جو تعداد ملک کو درکار ہے وہ تو پوری ہونہیں رہی حکومت کو یہ چاہیے تھا کہ استعمال شدہ گاڑیاں جو باہر سے آرہی ہیں ان کی امپورٹ ڈائریکٹ کرتے اور ایک پالیسی مرتب کرتے کہ استعمال شدہ گاڑیاں اب من مانی کے ریٹس پر فروخت نہیں ہوگی مگر حکومت ناکام رہی الٹا اپنے ٹیکسز کم کردئیے ناکہ اس مافیا کو ہاتھ ڈالا۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ پاک سوزوکی جس کا وجود 1981میں آیا تھا پاک سوزوکی نے اس وقت پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیاتھا کہ پانچ سال کے بعد ساری ٹیکنالوجی پاکستان میں آجائے گی اور سوزوکی گاڑیاں میڈ ان پاکستان کے نام سے تیار ہوکر نکلیں گئیں مگر بدنصیبی یہ ہے کہ آج چالیس سال گزر گئے اور ہم آج بھی اسملبڈ ہیں۔ موٹر ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایم ایچ شہزاد کا کہنا ہے کہ ہم نے وزیر خزانہ سے ٹائم مانگا ہے اور ہم اپنی موٹر پالیسی 2021سے لارہے ہیں جس میں ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ہمیں باہر سے استعمال شدہ گاڑیوں کی امپورٹ کی اجازت دے حکومت نے لوکل اسمبلڈ کو تو بلایا ہے مگر ہمیں نہیں بلایا ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ہمیں بلائے اور ہماری تجاویز سنے تو ہم عوام کو اس مافیا کے چنگل سے بچاکر 8سے 10لاکھ روپے میں گاڑیاں دے سکتے ہیں اور اس کے ساتھ حکومت کو بہت بڑا ریونیو بھی دیں گے۔

ایم ایچ شہزاد کا نے کہاں کہ پاکستان آٹو موبائل انڈسٹری کے لیے جنت ہے مگر المیہ یہ ہے کہ اس مافیا کو اب لت لگ چکی ہے یہ کبھی بھی مینو فیکچرز کی طرف نہیں جائیں گئیں کیونکہ جو لوٹ مار کا بازار انہوں نے پچھلے چالیس سال سے گرم کر رکھا ہے وہ بند ہوجائے گا اگر پاکستان میں مینو فیکچرز شروع ہوگئی تو ہم نے حکومت کو ایک مکمل پرپوزل بنا کر دیا ہے 2021سے 2026تک کا اگر حکومت نے سنجیدگی سے ہمارا موقف سن لیا تواس کے نتائج عوام کو پہلے ماہ ہی نظر آجائیں گے۔

آٹو ایسوسی ایشن کے چیئرمین نے انکشاف کرتے ہوئے کہا ALTO SUZUKI یہ پانچ سال پرانہ ماڈل ہے جس کو 2021بنا کر عوام کو دے رہے ہیں جبکہ یہی ماڈل بھارت میں ”ماروتی بھارت ون“ کے نام سے یہ گاڑی ہے جس کی قیمت صرف اڑھائی سے تین لاکھ روپے تک ہے اگر آپ کہیں کہ ان کا روپیہ ہم سے ڈبل ہے تو یہ گاڑی پانچ لاکھ انڈین روپے تک ہوگی جبکہ ہمارے ہاں یہی گاڑی ساڑھے 16لاکھ روپے کی ہے 90ہزار روپے اس میں بلیک مارکیٹنگ ہے۔

حکومت کیا کررہے ہے حکومت کیوں نہیں اس طرف توجہ دے رہی ہمارے یہ لوکل اسمبلڈ جو اپنے آپ کو جاپانی اسمبلڈ کہتے ہیں یہ اس وقت سولہ ممالک سے گاڑیاں اسملبڈ کررہے ہیں اور ان کی کوئی ایک گاڑی نہیں جس میں ایکسیڈینٹ

کی صورت میں انسانی جان بچ جائے یعنی کہ انتہائی تھرڈ کلاس کا میٹریل استعمال کررہے ہیں یہ لوگ جاپان اپنی عوام کو ڈومیسٹک کار دیتا ہے یہ دنیا کی نمبر ون گاڑی ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا میں کوئی بھی گاڑی نہیں ہے مگر جاپان یہ گاڑی ایکسپورٹ نہیں کرتا آج دنیا الیکٹرک گاڑیوں کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہم ابھی تک پٹرول مافیا اور لوکل اسمبلڈ میں پھنسے ہوئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں