اسلامی دنیا کے مسائل کا یک نقطہ حل ۔

سو سال کی سیاسی سفارتی جدوجہد اور دنیا بھر کی کی اخلاقی و سفارتی امداد و تعاون کے باوجود فلسطین بیت المقدس اور مسجد اقصٰی آج بھی مقبوضہ ہے۔ اقوام متحدہ کے سینکڑوں اجلاسوں، قراردادوں اور قیام امن کی خواہشات کے بلند و بالا ڈھیر سے فلسطین کشمیر اور دیگر اسلامی خطوں کے لیے امن سکون اور آزادی کی ایک رتی برآمد نہیں ہوئی۔ ایک صدی پر محیط محکومیت اور مظلومیت کے ذلت آمیز تجربے کے بعد بھی اسلامی دنیا اقوام متحدہ کی امن کی بین کے آگے ناچتی رہنا چاہتی ہے تو اسکی مرضی۔

لیکن کوئی تو ہو جو صلاح الدین ایوبی کی طرح مستقبل شناس ہو۔ جو جانتا ہو کہ اہل مغرب زمانہ قدیم کی طرح جنگوں کا تسلسل نہیں چاہتے وہ جانتے ہیں کہ وہ ایسی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے جس میں فریق مخالف مرنے مارنے پہ تلا ہو۔ وہ امن کی سازشی چالوں سے اہل اسلام کو تھکا اور سلا کر موت کے گھاٹ اتارنا چاہتے ہیں۔ اہل مغرب میں بہت تھوڑے لوگ ہیں جو جنگی مزاج رکھتے ہیں وہی آج وہاں حکمران ہیں۔ لیکن عوام کی اکثریت زندہ رہنا چاہتی ہے اور جنگ وجدال کی مخالف ہے۔ یہی نقطہ مغرب کی کمزوری ہے اور عالم اسلام کے اس کمزوری کا فائدہ اٹھانا چا ہیے۔

جہاد کسی مسلمان ملک جماعت یا فرد کے لیے ایک بابرکت سرگرمی کی حثیت رکھتا ہے یہ ایسا کاروبار جس میں نقصان کا ذرا سا بھی احتمال نہیں۔
اگر مسلمان شہید ہوتا ہے تو دائمی کامیابی ہے اگر دنیا میں جنگی لحاظ سے کامیاب ہو تو دنیا میں رعب دبدبہ عزت راحت اور سکون کا باعث ہے۔ معاشی پہلو سے دیکھیں تو آقا مدنی کریمﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کی روزی گھوڑے کی پیٹھ یعنی راہ جہاد میں رکھی گئی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اہل اسلام کو مال غنیمت اور جزیے کی شکل میں اتنی دولت ملتی تھی کہ جو عالمی سطح کے کاروبار سے بھی نہیں مل سکتی۔

مختصر یہ کہ جہاد اسلامی دنیا کے معاشی و معاشرتی ترقی اور استحکام کی ضمانت ہے اگر اسلامی دنیا کے حکمرانوں کو سمجھ آ جاۓ تو۔۔۔

اسرائیل یہودیوں کے لیے جنت ارضی سے کم نہیں ہے۔ سارے دنیا کے یہود یہاں رہنے کے لیے آئے ہیں لیکن اگر فلسطین میں جہاد شروع ہو جاتا ہے تو چند لاشوں اور نقصانات کے بعد ہی یہودیوں نے یہاں سے جانا شروع کر دینا ہے۔ فلسطین خودبخود خالی ہوجاۓ گا بشرط مسلمان سوچ لیں کہ مقبوضہ اسلامی علاقوں کی آزادی اور کفر کے دیوار سے لگنے تک جہاد جاری رہے گا۔

اس سلسلے میں اسلامی دنیا کو فلسطینیوں کی مدد کرنی ہوگی۔ جب باقاعدہ جہاد شروع ہوگا تو نصرت خداوندی پہنچ جاۓ گی۔ آپ کے سامنے بڑی مثال روسی اسلامی ریاستوں چیچنیا داغستان اور ہمسایہ ملک افغانستان کی ہے جنہوں نے جہاد شروع کیا تو اللّٰہ کریم نے غیب سے مدد فرمائی اور نتائج دنیا کے سامنے ہے۔

اہل فلسطین کے ساتھ ہاتھ یہ ہوا کہ اسکے اطراف کے عرب ممالک نے اسے تنہا چھوڑ دیا۔ انہوں نے خود اسرائیل کے ساتھ جنگیں لڑیں لیکن فلسطینیوں کو آلات حرب و ضرب فراہم نہیں کیے۔ اس طرح دو چار جنگوں کے بعد عرب ممالک ہانپ کر بیٹھ گئے لیکن فلسطینی احسان مند ہو بھی کر مظلوم و محکوم ہو رہے۔

اسلامی دنیا کھل کر فلسطین کی جنگی امداد کرے اور باہر سے جو جانا چاہتا ہے اسے راستے دے۔ انشاء اللّٰہ مستقبل میں مثبت نتائچ ملیں گے۔ اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کی منت سماجت کی ذلت سے جہاد کا راستہ آسان اور عظمت والا ہے۔ طالبان کو دیکھ لیں سارا مغرب دانتوں میں انگلی بیٹھا اور اقوام متحدہ نے افغان طالبان کے خلاف کوئی قراداد کوئی بحث نہیں ہو رہی۔ ہر چیز طالبان کی شرائط کے مطابق ہو رہی ہے اور عالمی طاقتیں مجبور ہیں۔ یہ سب جہاد کی برکت ہے۔

جمال پاشاء

اپنا تبصرہ بھیجیں