اکیسویں صدی میں تیار ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی لائبریریاں۔

جدید ٹیکنالوجی کے دور میں سمارٹ فون ایک اہم ترین ایجاد ہے جس کی صورت میں آپ کے ہاتھ میں چند انچ کی سکرین پر ایک دنیاموجود ہوتی ہے۔ اس ترقی کے ساتھ ساتھ ا س خدشے کا اظہار بھی کیا جاتا رہا کہ کتابوں سے بھری ہوئی بڑی بڑی لائبریریوں کا اب کیا بنے گا اور یہ کتابیں کہاں جائیں گی، خاص طور پر ہمارے خطے میں ایک بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ ہمارے ہاں اب کتاب پڑھنے کا رواج کم ہوتا جارہا ہے یہ بات کسی حد تک درست ہے لیکن اس کو جس سبب کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اس تناظر میں دیکھیں تو اس میں سراسر ہمارے ارباب اختیار کی کوتاہی اور من حیث القوم ہماری ترجیحات میں خرابی دکھائی دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ اور اس طرح کی اور ایجادات نے ہمارے نوجوانوں کو کتاب سے دور کردیا ہے، یہ دلیل دینے والے نہیں سوچتے کہ ہم یہ ٹیکنالوجی تو اغیار کی نقل کرکے حاصل کرتے ہیں جو ہم سے اس میدان میں کئی گنا اور کئی دہائیاں آگے ہیں لیکن وہاں کتاب پڑھنے کا رواج اب بھی کم نہیں ہوا، وہاں آج بھی کسی پبلک مقام پر یا کسی ٹرین، ہوائی جہاز، بس میں سفر کا موقعہ ملے تو آپ دیکھیں جدید عہد میں کتاب اور کتب خانے کی اہمیت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرنے والوں نے ایک حقیقت کی طرف توجہ نہ دی کہ جن قوموں نے ترقی کی ہے ان کی بنیاد علم، ادب اور تحقیق ہی رہے ہیں اور دنیا میں وہ سب انقلابات جو کسی حد تک اپنا اثر قائم رکھے ہوئے ہیں ان کی بنیاد علم ہی ہے۔ ان اقوام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کے علاوہ اور کوئی بھی راستہ تباہی کا سبب بنتا ہے۔

دنیاکی چند خوبصورت ترین اور بڑی لائبریریاں جو اکیسویں صدی میں یعنی حال ہی میں تعمیر ہوئیں۔

پیخام لائبریری، لندن برطانیہ :
یہ لائبریری 2000میں تعمیر ہوکر عوام کے لئے کھولی گئی، کہا جاتا ہے کہ اس لائبریری کے قیام سے برطانوی لائبریریوں کا احیاء ہوا۔ تما م تر عمومی سماجی مسائل کے ساتھ ایک نئی لائبریری کا قیام کسی طرح بھی اولیں ترجیح نہیں سمجھی جاسکتی تھی لیکن انہوں نے یہ عمارت قائم کی اور اس کے پہلے چھ ماہ میں پانچ لاکھ لوگ اس کے دروازوں سے علم و فکر کے اس ذخیرے کے اندر داخل ہوئے۔ یہ مقامی طو ر پر اب ایک خوبصورت سیاحتی مقام کا درجہ حاصل کر چکا ہے اور اس کا اندرونی منظر انتہائی شاندار ہے اس نے لائبریریوں کے بارے میں روایتی نظریات کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔

فری یونیورسٹی آف برلن، جرمنی کی لسانیاتی لائبریری:
جب نارمن فوسٹر کو اس یونیورسٹی کے لیے ایک نئی لائبریری بنانے کا کہا گیا تو اس نے سوچنا شروع کیا کہ لوگ زیادہ کیا پڑھتے ہیں۔ جو منظر اس کے سامنے آیا ہوسارا خاموش اور پرسکون تھا۔ یہ ایک قدرتی روشنی کا تصور بھی تھا۔ ا س نے کسی کو درخت کے نیچے بیٹھ کر پڑھتے ہوئے متصور کیا، اور اس نے یہ روشنی کا انداز یہاں اپنایا ہے، یہ لائبریری 2005ء میں قائم ہوئی ا س کی گول ساخت انسانی سر جیسی ہے اسے برلن کا دماغ بھی کہا جاتا ہے۔ فوسٹر کے دماغ میں ایک اہم بات بجلی کی بچت کرنا بھی تھی، اس کے اپنے الفاظ میں یہ لائبریری بیرونی دنیا کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔

رگا، لٹویا کی قومی لائبریری :
لٹویا کی قومی لائبریری نے اس بالٹک ریاست کی تاریخ کے عروج و زوال کی گواہ ہے، اس کا قیام1919ء میں عمل میں آیا تھا اور یہ لائبریری لٹویا کی آزادی کے ایک برس بعد قائم ہوئی لیکن 1940ء میں لٹویا کی آزادی دوبارہ سلب ہوگئی، ایس روس نے نگل لیا لیکن 1990ء میں دوبارہ آزادی ملی اور 2014ء اس لائبریری کی نئی عمارت تعمیر ہوئی ہے جو دیکھنے کے لائق ہے۔ اس سال رگا یورپی ثقافت کا دارلخلافہ بنا۔ ایک طاقتور احیاء کی علامت کے طور پر لٹویا کے لوگوں نے پرانی عمارت سے نئی عمارت میں کتابیں منتقل کرنے میں مدد کی۔

اسکندریہ مصر:
جو لئیس سیزر کبھی اسکندریہ کی لائبریری کو جلانا نہیں چاہتا تھاوہ اس کے نواح میں بندرگاہ پر کھڑے بحری جہازوں کو آگ لگانا چاہتا تھا لیکن اس کا یہ عمل تاریخ کی سب سے خطرناک اور ناپسند آتش زدگی قرار پایا۔ پانچ لاکھ سے زیادہ کتب دھویں کے بادلوں کا روپ دھار گئیں۔ تقریبا اتنے ہی مسودے ہمیشہ کے لئے غائب ہوگئے کوئی بھی ان کتابوں کو واپس نہ لاسکا۔ لیکن اب سکندریہ میں ایک نئی لائبریری بنی ہے جو دنیا کی خوبصورت ترین اور بڑی لائبریروں میں سے ایک ہے۔ یہ 2002ء میں تعمیر ہوئی جسے نارے کے آرکیٹیکٹ سنوہیٹا نے نقشہ بنایا، یہ جدید ترین عمارت ہے۔ اور اس کی سب سے اہم خصوصیت اس کے اندر رکھی گئی کتب ہیں اس کے اندر تیرہ تحقیقی مراکز قائم ہیں جن میں ایک اسلامی تحقیقی ادارہ بھی شامل ہے اور پندرہ مستقل نمائشیں جن میں ایک مسلمانوں کے عہد کی فلکیات کے متعلق ہے شامل ہیں یہاں سالانہ پندرہ لاکھ لوگ آتے ہیں اور کتابوں سے استفادہ کرتے ہیں۔

برینڈن برگ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی جرمنی کی لائبریری:
یہ 1991میں قائم کی گئی اوریہ وقت جرمنی کے ادغام کا تھا، اس کا جدید مینار بابل 2004ء میں بنا۔ اگرچہ اس کا بیرونی حصہ کچھ کلاسک انداز کا ہے لیکن اندرونی حصہ جدید ترین ہے۔ اس لائبریری میں بہت زیادہ لوگ دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔ کیونکہ بیک وقت جدیدقدیم کا نمونہ اور یہاں کتابیں بھی بے شمار ہیں۔

سرڈنکن رائس لائبریری یونیورسٹی آف ابردین برطانیہ:
کی سکاٹش شہروں کی طرح ابردین بھی بھدے میناروں کا شہر ہے لیکن 2012میں کوئین الزبتھ نے جس کا افتتاح کیا وہ سات منزلہ عمارت ایک بلند اور خوبصورت لائبریری کی عمارت ہے۔ یہ ایک بجلی گھر سے جڑی ہوئی ہے جو سمندر کو شہر سے ملاتا ہے اس کا زک زیک انداز تعمیر موسمی تحفظ کے طور پر بھی آتا ہے جوروشنی اور درجہ حرارت کی تبدیلی کو قبول کرتا ہے۔ اسے ربا (رائل انسٹیٹیوٹ آف برٹش آرکیٹیکٹ) کی طرف سے قومی ایوارڈ براے سال 2013سے نوازا گیا۔

ڈی کروک غنیت بیلجیم:
غنیت شہر میں طالبعلموں کی ایک کثیر تعداد ہے جو دنیا بھر سے یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں یہاں کئی اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم ہیں اور ان کے ساتھ کئی عمدہ لائبریریاں بھی موجود ہیں۔ انہی میں سے ایک سٹی لائبریری بھی ہے جو جدید ترین سہولتوں سے آراستہ عمارت میں قائم ہے۔

سئیٹل سنٹرل لائبریری امریکہ:
1997میں بیس کروڑ ملین ڈالر ز صرف ستائیس عوامی لائبریریوں کوتزہین نو کے لئے مختص کیے گئے۔ اس کا نصف سے زیادہ بجٹ صرف سنٹرل لائبریری پر صرف ہوا، جو 2004ء میں کتابوں کے شائقین کے لیے کھولی گئی۔ اس میں پندرہ لاکھ سے زاہد کتب ہیں اور سال میں بیس لاکھ سے زیاد ہ لوگ یہاں حصول علم اور تحقیق کے لئے آتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں