تاریخ اسلام کی عورت: آزادی نسواں کی حقیقی تصویر۔

ڈرامہ ارطغرل نشر ہورہا تھا ایک سین میں حلیمہ سلطان لما سا چغہ پہنے سر پر بڑی سی چادر اوڑھے کمر کے گرد خنجر باندھے بڑی پھرتی اور بے خوفی سے بیک وقت کئی مسلح حملہ آوروں سے مردانہ وار لڑ رہی تھی۔ سین ایسا تھا کہ جسے کئی بار دیکھا اور سراہا بھی۔ تاریخ اسلام میں عفت مآب مسلم خواتین کی بہادری اور جرات مندی کے جو قصے ہم نے پڑھے ان کی تھوڑی بہت جھلک اس سین میں دیکھنے کو ملی، بے ساختہ دل سے صدا آئی کہ ایسی ہونی چاہیے عور ت۔ گھڑ سواری، تیز اندازی، تلوار بازی، تیمارداری اور خدمت گزاری کے ساتھ گھر داری بھی۔ یہ تھے ہماری خواتین کے وہ گن جن کے بل پر وہ مردوں کے شانہ بشانہ چلتی تھی۔ یہ تھی وہ عورتیں جو صحیح معنوں میں حوصلہ مند، بہادر، باہمت، باحیا اور باکردار بھی تھیں۔ تاریخ اسلام میں کئی صحابیات ؓ، امہات المومنین ؓ اور دیگر خواتین کے قصے رقم ہیں جو ہر فن میں یکتا تھیں۔ اگر آپ ان خواتین کے ملبوسات کے حوالے سے پڑھیں تو ان کے حلیے ایسے نہیں ہوتے تھے کہ کوئی ان پر انگلی اٹھا سکے یا غلط نگاہ ڈال سکے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ مردوں کے قدم سے قدم ملاکر چلنے کے لئے ضروری نہیں کہ بے حیائی و بے باکی کی کو شعار بنا لیاجائے اور نہ ہی گھریلو اور پرد ہ دار ہونے کا یہ مطلب ہے کہ خود کو بہت بے بس و بے کس سمجھ لیا جائے۔ تاریخ اسلام میں آپ کو کہیں کسی چھوٹی موئی، ڈری سہی، ظلم وستم کی ماری بے چاری خاتون کا تذکرہ نہیں ملے گا۔ اس وقت کی خواتین وقت پڑنے پر بہترین طبیب بھی ثابت ہوتیں، میدان جنگ میں زخمی مجاہدین کی مرہم پٹی کرتیں اور ایسے وقت میں کہ جب انہیں اپنے مردوں کا حوصلہ ٹوٹتا محسوس ہوتا، تو تیراندازی اور تلوار بازی کے جوہر دیکھاتیں۔ وہ اپنے مردوں کا مان، شان بڑھاتی تھیں۔ ایسا عزم و حوصلہ رکھتی تھیں کہ اپنی نگاہوں کے سامنے بیٹے، باپ، بھائی یا شوہر کو شہید ہوتا دیکھ کر بھی خدا کا شکر بجا لاتیں کہ اللہ کے راستے پر ان کا پیارا جان قربان کرکے اور پیٹھ نہ دکھا کر انہیں سرخرو کرگیا، برادر ملک ترکی کا شکریہ جس کی بدولت ہم نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور باہمت اوربہادر مسلم خواتین کا تصور،تصویر بن کر ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہوگیا ہم پر واضح ہوگیا کہ حیا سوز، تنگ و چست ملبوسات میں بے ہودہ رقص و نغمہ سرائی ہرگز مسلم خواتین کی عکاسی نہیں،جسے ہمارے یہاں فلموں، ڈراموں کی کام یابی کی ضمانت سمجھ لیا گیا ہے۔ دور جدید کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے سامنے ماڈرن زمانے کی وہ عورتیں ہیں جن کی ایک بداخلاقی مرد کی غلیظ نگاہی پر جان نکل جاتی ہے۔کوئی بد خصلت کوئی بے ہودہ فقرہ اُچھال دے تو سہم کر رہ جاتی ہیں۔ کسی بدخصلت کو راہ میں کھڑا دیکھ لیں تو سٹپٹا کر راستہ بدل لیتی ہیں۔ ان کی آزادی محض ”میرا جسم میری مرضی“ یا ”اپنا موزہ خود ڈھونڈو“ اور ”اپنا کھانا خود گر م کرو“ کے نعروں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ گلیوں چوراہوں اور بازاروں میں بے حیائی کا مظاہرہ ان کی بہادری کا معیار بن گیا ہے۔
ٓآج ضرورت اس امر کی ہے ہماری بچیاں، خواتین اتنی بہادر ہوں کہ اگر وہ تعلیم یا ملازمت کی غرض سے گھر سے باہر نکلیں تو اپنی حفاظت کے لیے کسی کی محتاج نہ ہوں۔ اپنے باپ بھائی یا شوہر کے لیے شرم کی نہیں فخر کی باعث بنیں۔ اپنے شوہروں کے گھروں کی ملکہ بھی ہوں، والدین کے لیے ننھی پری اور بھائیوں کی لاڈلی گڑیا بھی لیکن اس کے ساتھ ضرورت پڑنے پر ان کا بازو بھی بن سکیں۔ ماضی سے زیادہ آج ضرورت ہے کہ بچیوں کو نڈر، بہادر اور باشعور بنایا جائے۔ اعلیٰ تعلیم ضروری ہے مگر کوئی ہنر سیکھنے میں بھی کوئی قباحت نہیں لیکن خدارا آج کی لڑکی کو چھوئی موئی بنا کر ہرگز نہ رکھیں کیوں کہ آج جس قدر بھیڑئیے نما مرد ان کی گھات میں ہیں پہلے نہیں تھے اور ان سے نمٹنے کے لیے اعتماد حوصلے، ہمت اور بھروسے کی اشد ضرورت ہے۔
یاد رکھیے ایک تعلیم یافتہ اور باشعور عور ت پوری نسل کی تعلیم و تربیت کی ذمے دار ہوتی ہے اور ایک تعلیم یافتہ ماں ہی اپنے بچے کی بہترین تربیت کرسکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں کئی ایسی تعلیم یافتہ مائیں موجود ہیں جو گھروں میں رہ کر اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرکے اپنا فرض نبھا رہی ہیں۔ اور ایسی خواتین کی بھی کمی نہیں ہے جنہوں نے ملازمت اور کسب حلال کے ساتھ اپنا گھر جنت کا نمونہ بنا رکھا ہے۔ خواتین کی فعالیت وقت کی ضرورت ہے خواتین موجودہ دور میں طب، درس و تدریس، صحافت، ذرائع ابلاغ، زراعت، صنعت و حرفت او ر دیگر تکنیکی شعبوں میں کام کررہی ہیں اگر نہ کریں تو کام نہیں چل سکتا۔ عورت کی آزادی دیکھنی ہے تو مسلمان عورت کی تاریخ اور اس کا شان دار کردار دیکھیں۔ وہ حدود میں رہتے ہوئے بھی کس قدر ماڈرن، بااختیار اور مضبوط تھی اور اس کے ساتھ محفوظ و مستحکم بھی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں