زراعت کے گریجویٹ کو کیا کرنا چاہیے۔۔؟

پاکستان میں زرعی یونیورسٹیوں او ر تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل اکثر گریجوٹس جب کر لیتے ہیں تو وہ بیج، کیڑے مار ادویہ اور آلات والی کمپنیوں کی مارکیٹنگ کرتے نظر آرے ہوتے ہیں یعنی ملازمت کے شعبے سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ یہ کام مارکیٹنگ کی تعلیم پانے والے گریجوٹس کا ہے۔ زراعت پڑھنے والوں کو تو کاشت کاری کرنی چاہیے یہ تحقیقی اداروں میں زرعی تحقیق، سیلز مینی کرنا انہیں زیب ہی نہیں دیتا حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ زرعی تعلیم پڑھنے والے افراد کو کاشت کار بننے میں مدد کرے اور مراعات دے۔ وجہ یہ ہے کہ زراعت میں تعلیم یافتہ مردوزن آنے سے وہ بہتر طور پر کھیتی کر سکیں گے اور اس طرح ملکی پیداوار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا حکومت کو چاہیے کہ وہ زرعی تعلیم والے افراد کو سرکاری زمینیں برائے کاشت کاری فراہم کریں انہیں قرضے بھی جلد ملنے چاہیں۔ ایسی مراعات دینے سے زرعی گریجوٹس کو ترغیب ملے گی کہ وہ کاشت کار بن جائیں ہمارے زرعی تحقیقی مراکز کی تدوین نو بھی ضروری ہے۔ رواج یہ ہوچکا کہ یہ مراکز مہنگے ہوٹلوں میں زراعت پر سیمینار کراتے ہیں جہاں آئے، کھائے،پیئے اور چلے گئے والا معاملہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان مراکز میں تحقیق جاری ہے مگر ان کا عام کسانوں سے ربطہ ٹوٹ چکا ہے لازم ہے کہ ان مراکز کے ماہرین کسانوں سے رابطہ رکھیں انہیں کھیتی کے جدید طریقوں سے بابت بتائیں۔ تربیت دیں اور ان کے مسائل سے آگاہ ہوں تب ہی وہ کسانوں کے لئے مفید تحقیق انجام دے سکیں گے۔
دوسری جانب پاکستان میں چھوٹے کسانوں کی اکثریت ہے۔یہ بارہ ایکٹر سے کم زمین رکھتے ہیں دور جدید میں ان کا اہم مسلہ پانی کی کمی بن چکا ہے۔ آبادی بڑھنے اور آب وہوائی تبدیلیوں کے باعث دریاوں میں بہاو کم ہوچکا ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح بھی کافی نیچے جاچکی ہے۔ نیز بارشوں کی کیفیت بھی بدل رہی ہے۔ کبھی تو مسلسل بارشیں ہوتی ہیں اور ہر طرف جل تھل ہوجاتا ہے۔ کبھی کئی ہفتے گزر جاتے ہیں اور ایک بوند بھی نہیں ٹپکتی۔ ان عوامل نے مل کر کسانوں کو مسلے سے دوچار کردیاہے۔ ایک حل یہ ہے کہ وہ ڈرپ یا اسپرنکل آب پاشی طریقے اپنا لیں۔ ان جدید طریقوں سے پانی کی 30تا 40فیصد بچت ہوتی ہے۔ نیز کھاد بھی فصل کو کم دینا پڑتی ہے۔ مگر یہ نظام کھیت میں نصب کرنے پر فی ایکڑ ڈیڈھ لاکھ روپے خرچ ہو تے ہیں۔ اگر سولر سسٹم درکار ہوتو خرچہ تین لاکھ تک پہنچ جاتا ہے۔ اور بیشتر کسان لاکھوں روپے کے یہ اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔ حکومت چھوٹے کسانوں کو درج بالا نظام لگانے کی خاطر مالی مدد دیتی ہے لیکن وہ کم ہے۔ ضروری ہے کہ حکومتیں خصوصا چھوٹے کسان کو زیادہ مالی امداد فراہم کریں تاکہ وہ اپنے کھیت میں ڈرپ یا اسپرنکل سسٹم لگا کر پانی کی کمی جیسے سنگین مسلے سے چھٹکارا پاسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں