فنونِ جنگ سے واقف دنیا کا ماہر سپہ سالار۔

یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ دین اسلام جنگ و جدال کا مذہب نہیں،بلکہ صلح و سلامتی اور امن و امان کا مذہب ہے ۔حضرت رسول اکرم ﷺ رحمت کا پیغام لے کر آئے تھے۔ لڑائی اور جنگ کی خاطر تشریف نہ لائے تھے۔ اسلام ایک نیا دینی نظام لایا جس نے پرانے اور باطل نظام کو منسوخ کردیا۔ اسلام کی جنگیں مجبوری کی بنا پر لڑی گئیں۔ حضرت رسول اکرم ﷺ نے تنگ آکر جنگ کی۔ جب آپ ﷺ کے لیے کوئی چارہ کار نہ رہا تو دشمنوں کی شرارتوں کو روکنے کے لیے آپ ﷺ بھی میدان کا ر زار میں اترنے پر مجبور ہوگئے۔
ان غزوات اور دینی جنگوں نے ثابت کردیا کہ آنحضرت ﷺ کو فنون جنگ میں بڑی مہارت حاصل تھی اور آپ ﷺ لشکر کشی، فوجی تربیت، عسکری نظام اور میدان جنگ میں فوج کی قیادت اور سالاری کے اصولوں سے خوب واقف تھے۔
حضرت رسول اکرم ﷺ کی یہ عادت تھی کہ جب کسی کام کا ارادہ کرتے یا کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا تو آپﷺ اپنے لشکر کے چند تجربہ کار سپاہیوں او ر خاص افراد کو بلاکر مشورہ کرتے مختلف خیالات اور تجویزوں کو اچھی طرح جانچنے اور جب معاملہ طے پاجاتا تو پھر بلا خوف و خطر کود پڑتے اور مشکلات سے بالکل نہ گھبراتے تھے۔
آنحضرت ﷺ ہمیشہ اپنی ذات سے بے نیاز ہوکر میدان جنگ میں فوج کی رہنمائی فرماتے آپﷺ ہمیشہ اپنی جان پر کھیل جانے کے لیے تیار نظر آتے۔آپ ﷺ کا یہ دستور تھا کہ اپنے لشکر کی صفوں میں گھوم پھر کر اپنے بہادر سپاہیوں کو ہمت اور جرات دلاتے۔ ثابت قدمی اور بہادری پراکستاے۔ آپﷺ کی بہادری اور جوانمردی کو دیکھ کر آپ ﷺ کے ساتھی بھی نڈر ہوکر لڑتے تھے۔
آنحضرتﷺ کی جنگی مہارت اور عسکری قیادت بھی بے نظیر تھی۔ غزوہ بدر میں مقام بدر کو میدان جنگ بنا کر بہترین جنگی مہارت کا ثبوت دیا اور پانی کے کنویں پر قبضہ کرکے دشمنوں کی تمام تدبیروں کو خاک میں ملا دیا۔
جنگ احد میں بھی آپ ﷺ نے فنی مہارت کا بے مثال ثبوت دیا۔ آپ ﷺ نے گھاٹی کے محافظ تیر اندازوں کو حکم دیاتھا کہ وہ گھاٹی کو ہر گز نہ چھوڑیں اور دشمن کے گھوڑوں پر تیر برساتے رہیں۔ کیونکہ گھوڑے تیروں کے مقابلے پر نہیں ٹھہر سکتے۔ جب گھاٹی کے محافظوں نے آنحضرت ﷺ کی ہدایت کے خلاف گھاٹی کو چھوڑ دیا تو دشمنوں نے موقع پاکر گھاٹی کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ آپ ﷺ کی ثابت قدمی، استقامت اور بہادری کی وجہ سے مسلمانوں کو فوج ہزیمت و شکست سے بچ گئی۔
جنگ خند ق میں آپ ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا تو حضر سلیمان فارسی ؓ کے رائے وحی الہی کے مطابق نکلی۔ آنحضرت ﷺ نے خندق کھودنے کا حکم دیا، بلکہ خود بھی خندق کھودی۔ عربوں کے لیے خندق کھود کر شہر کی حفاظت کرنا اور دشمنوں کے حملوں کو روکنا بالکل نئی چیز تھی۔ وہ اس طریقہ جنگ سے بالکل ناواقف تھے۔ جب قریش اور یہودی ہمت ہار کرنا کام واپس چلے گئے تو حضرت رسول اکرمﷺ کی جنگی مہارت و قابلیت اور عسکری قیادت کا سکہ سارے عرب میں بیٹھ گیا۔
صلح حدیبیہ بظاہر مسلمانوں کے مفاد کے خلاف نظر آتی تھی لیکن واقعات نے ثابت کردیا کہ یہ صلح سیاسی اعتبار سے بڑی اہم تھی۔ اس صلح نے مسلمانوں کا سیاسی اقتدار قائم کرنے میں سنگ میل کا کام دیا۔ یہ صلح نامہ اس بات کی شہادت تھی کہ مسلمان بھی قریش کے مقابلے پر ایک طاقتور سیاسی اور دینی جماعت ہے۔ بین الاقوامی قانون کی رو سے معاہدہ صرف دو برابر کی قوموں کے درمیان ہوسکتا ہے۔ یہ معاہدہ کرکے قریش نے اس بات کا اعتراف و اقرار کرلیا کہ جزیرہ عرب میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہے۔
جنگ حنین میں آنحضرت ﷺ نے بے نظیر شجاعت اور استقامت کا ثبوت دیا۔ اپنی بہادری اور ثابت قدمی سے میدان جنگ سے بھاگتے ہوئے مسلمانوں کو دوبارہ جمع کرکے صفوں کو ازسر نو ترتیب دیا اور دشمنوں کو مار بھگایا۔
محاصرہ طائف میں منجنیقیں دبابے اور دوسرے آلات جنگ استعمال کرکے یہ ثابت کردیا کہ سالار کی حیثیت میں آپ نے نئے آلات جنگ سے واقف تھے اور جنگی ضرورتوں کے پیش نظر نئے آلات کے بنانے اور استعمال کرنے کے لیے اپنے سپاہیوں کو دوسرے علاقوں میں تربیت حاصل کرنے کی خاطر بھیجنا اس بات کی شہادت ہے کہ حضرت رسول اکرمﷺ بڑے ماہر سپہ سالار اور فنون جنگ سے واقف تھے۔
آپ ﷺ کا یہ بھی دستور تھا کہ دشمنوں کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے جاسوس مقرر کرتے جو دشمنوں کی فوجی نقل و حرکت کی اطلاع آپ ﷺ تک پہنچاتے رہتے تھے۔
حضرت رسول اکرم ﷺ جب ضروری سمجھتے تو جنگی معاملات میں بڑی راز داری سے کام لیتے فتح مکہ کے لیے لشکر کی تیاری میں بڑی احتیاط برتی گئی اور کوشش کی گئی تھی کہ دشمنوں کو خبرنہ ہونے پائے۔ آپ ﷺ نے یہاں تک کیا کہ لشکر کی روانگی کے وقت تک کسی کو علم نہ ہونے دیا کہ کہاں جارہے ہیں۔ آپ ﷺ کی جنگی قابلیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنا مقصد اور منزل فوج پر ظاہر نہ کرکے بلکہ دکھاوے کے لیے چکر کاٹ کر نامعلوم راستوں سے گزر کر مکے پہنچے۔ رات کے وقت ساری فوج نے ایک دم آگ روشن کی جس سے مکے والے ڈر کر ہمت ہار بیٹھے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں