مسلم دنیا کی او آئی سی کی قراردادیں بے اثر کیوں۔؟

رمضان المبارک میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ اگراسلامی ممالک ساتھ دیں تو پاکستان میں وہ قائدانہ صلاحیتیں ہیں کہ وہ امت مسلمہ کو درپیش مسائل سے نکال سکتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ پاکستان پورے خطے سے امریکہ کی چوہدراہٹ کے خاتمے کے لیے چین، روس، ترکی اور ایران پر مشتمل ایک کثیر الجہتی اتحاد تشکیل بھی دے سکتا ہے۔ مگر افسوس اور بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوپارہا اقوام متحدہ کی طرح مسلم دنیا کی او آئی سی نے بھی مسلہ فلسطین کے حل پر فلسطینوں کے حقوق کا دفاع کرنے میں نا کام رہی جن میں سربراہی اجلاس بھی شامل تھے۔

سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ جب بھی کوئی بڑی قرارداد پا س ہوتی ہے تو اس تنظیم میں باعث ممالک کے رکن ساتھ نہیں دیتے اور اس قرارداد کی مخالفت کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس پلیٹ فارم سے آج تک کوئی مضبوط فیصلہ نہ ہوسکا اور نہ ہی کوئی ایسی قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوسکی جو اقوام عالم میں تھرتھلی مچا دے۔ جب کہ اس تنظیم تعاون اسلامی (او آئی سی) کے قیام کا مقصد تو یہ تھا کہ فلسطین کی آزادی، قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی آزادی اور مسلم دنیا کے مسائل اس میں شامل تھے۔

یہ تنظیم سن 1969ء مراکش کے شہر رباط میں قائم کی گئی تھی یہ وہ وقت تھا جب مسجد اقصیٰ پر ایک غیر مسلم شدت پسند نے حملہ کیا اس حملے سے اسلامی ممالک میں شدید غم و غصہ پایا گیا، یہ مسلمان ممالک کی ایک اہم ترین مسجد کی بے حرمتی پر ان کے شدید ردعمل کے طور پر قائم ہوئی تھی۔ اس سے قبل عرب لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا مگر وہ صرف عرب ممالک سے متعلق تھا۔ اس تنظیم کا دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہے اس تنظیم کی سرکاری زبانیں، عربی انگریزی اور فرانسیسی ہیں۔

او آئی سی میں 58ممالک کے ممبر ہیں 1969ء میں جب یہ قائم ہوئی تو اس کے بنیادی ارکان میں افغانستان، الجزائر، چاڈ، مصر، جمہوریہ، ماریطانیہ، مراکش، نائیجیریا، پاکستان، ترکی، لبنان، ملائشیا، یمن، بحرین الغرض تمام اسلامی ممالک کو شامل کیا گیا یہاں تک کہ اس خطے کے کچھ غیر اسلامی ممالک بھی اس تنظیم کا حصہ بنے جن میں تھائی لینڈ اوربعد میں روسن بھی 2005میں آکر اس کا حصہ بنے۔ او آئی سی میں شامل ممالک کا کل رقبہ 3کروڑ 16لاکھ 60ہزار مربع کلو میٹر ہے اور اس کی آبادی ایک ارب 86کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

اوآئی سی کے ان 57ممالک میں واقعی اتحاد بڑھ جائے تو مسلم دنیا کا ایک مضبوط بلاک بن جائے گا جس کے بعد وہ اپنی اقتصادی، معاشی اور عسکری اعتبار سے دنیا پر حکومت کھڑی کرسکتا ہے۔ امت مسلمہ کو متحد کرنے کی کوششیں انیسویں صدی سے ہی جارہی ہیں جن کا واحد مقصد یہ تھا کہ اسلامی دنیا کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔ مختلف اسلامی ممالک کے سیاسی نظریات کے باوجود جب او آئی سی بنی تو تمام اسلامی ممالک نے اس میں بھرپور تعاون کیا تھا۔

اقوام متحدہ کے بعد او آئی سی دنیا کی دوسری بڑی تنظیم ہے۔ تھائی لینڈ اقوام متحدہ یورپی یونین کے مستقل نمائندے یہاں مندوبین کی حیثیت سے شرکت کرتے ہیں۔اس او آئی سی نے آج تک مسلمان ممالک کو فائدہ دینے کی بجائے نقصان ہی پہنچایا جس کی چند زندہ مثالیں ہیں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو او آئی سی صرف جنگ مسترد کرنے تک محدود رہی سوڈان کو خانہ جنگی کی بھٹی میں جھونک دیا گیا، مگر او آئی سی دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کے بحران کا سدباب نہ کرپائی۔

امریکہ نے افغانستان کو تباہ برباد کردیا تہس نہس کردیا مگر او آئی سی کچھ نہ کرسکی۔ اسرائیل نے لبنان پہ کئی مرتبہ جنگ مسلط مگر او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اسرائیل کے لیے کوئی مزاحمت نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ گولان کے علاقے پہ اسرائیل کے قبضے کو جائز تسلیم کرلیا مقبوضہ بیت المقدس شہر کو اسرائیل نے اپنا دارلحکومت بنا لیا مگر او آئی سی حرکت میں نہ آئی۔ میانمار میں مسلمانوں کو بے دردی سے ذبح کیا گیا ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی مگر او آئی سی خاموش۔ ان تمام واقعات پر عملاً کچھ کرنے کی بجائے او آئی سی کے پلیٹ فارم سے خالی مزحمتی بیان جاتے رہے۔

امریکہ نے عراق، افغانستان اور دیگر غیر مسلم طاقتوں نے کشمیر،میانمار، فلسطین، عراق، افغانستان، یمن میں آج تک ملین مسلمانوں کا قتل عام کروایا ہے مگر مسلمانوں کی یہ تنظیم آج تک کچھ نہ کرسکی اس کی بنیادی وجہ ہے کہ مسلم ممالک کے اندر غدار، وطن فروش او رسیاسی الجھاہوں کا شکار حکمران اپنے اپنے اقتداد کو بچانے تک ہی محدود رہے کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ جو کچھ عراق، افغانستان یا دیگر کے ساتھ ہورہا ہے وہ کل ہمارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اس بات کی کبھی کسی نے پرواہ نہیں کی حالانکہ کانفرنس کے چارٹر میں واضح طور پر درج ہے کہ تما م ارکان اپنے باہمی تنازعات پر امن طریقے سے حل کریں گے اور باہم جنگ سے حتی الامکان گریز کریں گے لیکن عملی طور پرا س کا مظاہرہ آج تک دیکھنے میں نہیں آیا۔

دراصل عالمی طاقتیں یہ چاہتی ہی نہیں ہیں کہ رابطہ او آئی سی دنیا میں ایک طاقتور مسلم بلاک بن کر ابھرے یا مسلم ممالک اپنے تنازعات کو باہم اس پلیٹ فارم پر حل کرلیں ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے رحجانات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ایک موثر و مضبوط پلیٹ فارم بنایا جائے تاکہ یہ ایک عظیم طاقت بن سکے۔ اس میں نئی روح پھونکنے کے ساتھ ساتھ اصلاحات کی بھی ضرورت ہے او آئی سی کے ذریعے سفارت کاری سے یہ رابطہ گروپ اسلام ممبران ملکوں میں ڈیجیٹل انقلاب برپا کرنے غربت کا خاتمہ،
ٹیکنالوجی،تعلیمی،معاشی صنعتی ترقی کو بڑھانے کے لیے اس کو اپنے پیرو ں پہ کھڑا کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں