آنحضرت ﷺ کا تاریخی خطبہ اورمُصطفوی انقلاب۔

اللہ ایک ہے‘ جس کا کوئی شریک نہیں اس نے اپنا وعدہ سچا کردکھایا۔ اپنے بندے کی مدد کی اور سارے گروہوں کو شکست دی کسی شخص کوجو اللہ اور رسولﷺ پرایمان لایا ہے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مکہ میں خونریزی کرئے کسی سرسبز درخت کا کانٹا بھی اس میں جائز نہیں ہے۔ میں نے زمانہ جاہلیت کی تمام رسموں کو پاوں میں مسل دیا ہے مگر مجاورت کعبہ اور حاجیوں کو آب زمزم پلانے کا انتظام باقی رکھا جائے گا اے گروہ قریش تم کو اللہ نے جاہلیت کے تکبر اور آباء پر فخر کرنے سے منع فرما دیا ہے۔ کل آدمی آدم ؑ سے اور آدم ؑ مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ترجمہ: اے گروہ قریش تم کو معلوم ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟
اس سوالیہ فقرے کو سن کر قریش یعنی اہل مکہ نے کہا کہ ہم آ پ ﷺ سے بھلائی کی توقع رکھتے ہیں کیونکہ آپ ﷺ ہمارے بزرگ بھائی اور بزرگ بھائی کے بیٹے ہیں آپ ﷺ نے یہ جواب سن کرفرمایا کہ:
اچھا میں بھی تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا
ترجمہ: آج تم پر کوئی ملامت نہیں جاو تم سب لوگ آزاد ہو۔
اس خطبہ سے فارغ ہوکر آپ ﷺ کوہ صفا پرجا بیٹھے اور لوگوں سے اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کی بیعت لینے لگے۔ مردوں کی بیعت سے فراغت پاکر آپ نے حضرت عمر بن الخطا ب کو عورتوں سے بعیت لینے پرمامور فرمایا اور خود بی نفس نفیس ان کے لئے استغفار کرتے رہے۔ صفوان بن امیہ فتح مکہ کے بعد بخوف جان یمن کی طرف بھاگا۔ عمیر بن وہب ؓ نے جو ا س قوم سے تھے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر صفوان کے لئے امان طلب کی۔ آپ ﷺ نے اس کو امان دی اور اس امر کے ثبوت کی غرض سے اپنا عمامہ جو مکہ میں داخل ہوتے وقت آپ ﷺ کے سرمبارک پر تھا، مرحمت فرمایا۔ عمیر بن وہب صفوان کو یمن کے قریب سے واپس لائے۔ اس نے آنحضرت ﷺ سے د ومہینے کی مہلت طلب کی۔ آپ ﷺ نے چار مہینے کی مہلت عطا فرمائی۔ یہ صفوان وہ شخص تھا جس نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہوتے وقت مزاحمت کی تھی اور پھر تاب مقاومت نہ لاکر فرار ہوگیا تھا۔ یہی حالت عکرمہ بن ابی جہل کی بھی ہوئی۔ اس کو بھی آپ ﷺ نے معاف فرمایا۔ یہ دونوں جنگ حنین کے بعد بخوشی مسلمان ہوگئے تھے۔
حق آیا اور باطل سرنگوں ہوگیا: خانہ کعبہ کے بتوں کا ٹوٹنا گویا تمام ملک عر ب کے بتوں کا ٹوٹنا تھا۔ اسی طرح قریش مکہ کا اسلام میں داخل ہوجانا اور اسلام کی اطاعت اختیار کرنا سارے ملک عرب کا مطیع ہوجانا تھا۔ کیونکہ تمام قبائل کی آنکھیں قریش مکہ کی طرف ہی لگی ہوئی تھیں کہ وہ اسلام اختیار کرتے ہیں یا نہیں۔ فتح مکہ کے بعد بہت سے قریش مسلمان ہوگئے تھے لیکن بہت سے اپنے کفر اور بت پرستی پر قائم رہے۔ کسی کو زبردستی اسلا م میں داخل کرنے کی کوشش مطلق نہیں کی گئی۔ بلکہ مدعا صرف امن و امان قائم کرنا اور فساد بدا منی دور کرنا تھا۔ چنانچہ اب وہ خدشہ باقی نہ رہا اور لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل ہوئی۔ اس مذہبی آزادی کی حالت میں بت پرستوں کو اسلام کے مطالعہ کرنے اور سمجھنے کا موقع ملااور وہ یکے بعد دیگرے بہت جلد بخوشی اسلام میں داخل ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ تھوڑے ہی دنوں میں سب نے اسلام قبول کرلیا۔
فتح مکہ سے فارغ ہوکر آپ ﷺ نے شہر مکہ میں منادی کرائی کہ جو لوگ مسلمان ہوگئے ہیں وہ اپنے گھروں میں کوئی بت باقی نہ رہنے دیں۔ پھر آپ ﷺ نے نواح مکہ کے مشہو ر بتوں کو توڑنے اور بت خانوں کے منہدم کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے دستے روانہ کئے۔ حضرت خالد بن ولید کو تیس سواروں کے ہمراہ روانہ کیا کہ بنو کنانہ کے بت عزی نامی کو جس کا استھان ایک نخلستان میں تھا، جاکر منہدم کریں۔ خالد بن ولید ؓ نے جاکر عزیٰ کو پاش پاش کردیا اور اس کا مندر مسمار کرکے زمین کے برابر کردیا۔ حضر ت عمرو بن العاص ؓ کو بنی ہذیل کے بت سوارح کو توڑنے اور مسمار کرنے کے لئے بھیجا گیا۔ حضر عمرو بن العاص ؓ جب مندرد کے قریب پہنچے تو پجاری نے کہا تم کیسے قادر ہوسکتے ہو؟ حضر عمرو ؓ نے کہا تم دیکھتے جاو یہ کہہ کر مندر میں داخل ہوگئے اور بت کو پاش پاش کردیا۔ پجاری اسی وقت بت پرستی سے تائب ہوکر مسلمان ہوگیا۔ حضرت سعد بن زید اشہلی ؓ کو مناۃ نامی بت کو توڑنے کے لئے مقام قدید کی طرف بھیجا گیا۔ وہاں کے پجاری بھی یہ یقین رکھتے تھے کہ مسلمان بت کو توڑنے پرہر گز قادر نہ ہوسکیں گے۔ مگر انہوں نے دیکھ لیا کہ مسلمانوں نے جاتے ہی اس کو توڑ پھوڑ کر مندر مسمار کردیا۔ اسی طرح اور بھی بت خانے مسمار ہوئے۔ اس کے بعد بعض قبائل کی طرف تبلیغ اسلام کے لئے آپ ﷺ نے وفود روانہ کئے۔حضر خالد بن ولیدؓ بنو جذیمہ کی طرف بھیجے گئے ان کو قتال سے منع کردیا گیا تھا۔ لیکن وہاں اتفاقاً حضرت خالد بن ولید ؓ کو جنگ کرنی پڑی اور بنوجذیمہ کے چند لو گ مقتول ہوئے۔ ان کا اسباب مال غنیمت کے طور پر خالد بن ولید ؓ جب لے کر واپس مکہ میں پہنچے تو آنحضرت نے اس واقعہ پر اظہار افسوس فرمایا۔ بنو جذیمہ کا مال و اسباب او ر اس کے مقتولین کا خون بہاآنحضرت ﷺ نے حضر علی ؓ کے ہاتھ جذیمہ کے پاس واپس بھیجوایا۔ فتح مکہ کے بعد آپ ﷺ مکہ مکرمہ میں پندرہ روز تک مقیم رہے اور نمازیں برابر قصر فرماتے رہے۔ آپ ﷺ کے بلا تعین قیام سے انصار کے دل میں اندیشہ پیدا ہوا کہ اب شاید آپ ﷺ مکہ ہی میں رہیں گے مدینے واپس نہ جائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں