جاپانیوں نے دشمن سے کیا سیکھا اور کس طرح دنیا پر چھا گئے۔

1949ء میں جاپانیوں نے اپنے یہاں ایک صنعتی سیمینار کیا اس سیمینار میں انہوں نے امریکہ کے ڈاکٹر ایڈورڈڈیمنگ (Dr Edward Deming)کو خصوصی دعوت نامہ بھیج کر بلایا۔ ڈاکٹر ڈیمنگ نے اپنے لیکچر میں اعلیٰ صنعتی پیداوار کا ایک نیا نظریہ پیش کیا یہ کوالٹی کنٹرول کا نظریہ تھا۔
(ہندوستان ٹائمز 28اگست 1986)
جاپان کے لیے امریکہ کے لوگ دشمن قوم کی حیثیت رکھتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان کو بدترین شکست او ر زلت سے دوچار کیا تھا۔ اس اعتبار سے ہونا یہ چاہیے تھا کہ جاپانیوں کے دل میں امریکہ کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکے مگر جاپانیوں نے اپنے آپ کو اس قسم کے منفی جذبات سے اوپراٹھا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ امریکی پروفیسر کو اپنے سیمینار میں بلائیں اور اس کے بتائے ہوئے نسخہ پر ٹھنڈے دل سے غور کرکے اس کو دل وجان سے قبول کرلیں۔ جاپانیوں نے امریکی پروفیسر کی بات کو پوری طرح پکڑ لیا۔ انہوں نے اپنے پورے صنعتی نظام کو کوالٹی کنٹرول کے رخ پر چلانا شروع کیا۔ انہوں نے اپنے صنعت کاروں کے سامنے بے نقص (Zero -defect)کا نشانہ بنا رکھا۔ یعنی ایسی پیداوار مارکیٹ میں لانا جس میں کسی بھی قسم کا کوئی نقص نہ پایا جائے۔ جاپانیوں کی سنجیدگی اور ان کا ڈیڈیکیشن اس بات کا ضامن بن گیا کہ یہ مقصد پوری طرح حاصل ہو۔
جلد ہی ایسا ہوا کہ جاپانیوں کے کارخانے بے نقص سامان تیار کرنے لگے۔ یہاں تک کہ یہ حال ہوا کہ برطانیہ کے ایک دکاندار نے کہا کہ جاپان سے اگر میں ایک بلین کی تعداد میں کوئی سامان منگواؤں تو مجھ کو یقین ہوتا ہے کہ ان میں ایک چیز بھی نقص والی نہیں ہوگی۔
چنانچہ تمام دنیا میں جاپان کی پیداوار پر صد فی صد بھروسہ کیا جانے لگا۔ اب جاپان کی تجارت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے حتیٰ کہ وہ خود امریکہ کے بازار پر چھاگیا جس کے ایک ماہر کی تحقیق سے اس کوالٹی کنٹرول کا مذکورہ نسخہ حاصل کیا تھا۔ اس دنیا میں بڑی کامیابی وہ لوگ حاصل کرتے ہیں جو ہر ایک سبق سیکھنے کی کوشش کریں، خواہ وہ ان کا دوست ہویا ان کا دشمن۔

اپنا تبصرہ بھیجیں