دیانت کاروبار کا سب سے بڑا اصول ہے,مگر آج کے دور میں کیسے ممکن ہے ۔۔؟

تاجر اگر صادق اور امین نہیں تو وہ اس منصب کا اہل نہیں۔ ترازو منصب کے ہاتھ میں ہی نہیں تاجر کے ہاتھ میں بھی ہوتی ہے۔ کیا وہ پورا تولتا ہے، کیا وہ ملاوٹ تو نہیں کرتا،کیا وہ خیانت کا مرتکب تو نہیں ہورہا۔ یہ اصول بازار مارکیٹ اور منڈیوں پہ ہی نہیں ملوں، فیکٹریوں، کارخانوں پہ بھی لاگو ہوتے ہیں۔ دیانت کی راہ پر چلنے سے کوئی شخص غریب نہیں ہوا۔ چند مثالیں ایسی ہیں کہ سچائی اور دیانت نے لوگوں کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔
چنیوٹی شیخ جس ماحول میں پروان چڑھے وہاں دیانت اور امانت کی پاس داری کا چرچا تھا اور لوگ کاروبار کو عبادت خیال کرتے تھے۔ ہمارے بزرگوں نے ہمیں بتایا کہ دین اسلام پیغمبرحضرت محمد ﷺ خود تاجر تھے اور انہوں نے تجارت کے بڑے روشن اصول وضع کردیے۔ ان اصولوں میں دیانت سہر فہرست ہے۔ چنیوٹی شیخوں نے مقدور بھر کوشش کی کہ اس اصول کو اپنا سکیں اور یہی وہ خوبی تھی اس نے انہیں بازار میں اعتماد بخشا اور وہ بڑے بڑے کاروباری لوگوں کے مقابلے کے قابل ہوئے۔
ہماری دیانتداری کی گواہی سمجھتے ہوئے لوگوں نے ہم پر کروڑوں کا اعتبار کیا اور بنکوں نے بڑے بڑے قرضے دئیے۔ شیخ محمد اسماعیل نے 1894ء میں قصور میں اپنا کاروبار شروع کیا وہ نہ کسی بڑے رتبے کے مالک تھے اور نہ ان کے پاس سرمایہ تھا کہ ان کی ساری زندگی ہندووں کا مقابلہ کرتے ہوئی گذری ۔ہندو کسی مسلمان کو تجارت میں ابھرتا نہ دیکھ سکتے تھے۔ مگر شیخ محمد اسماعیل ایسے تاجر تھے کہ ہندو بھی ان کا سکہ مانتے تھے اور بار بار کہتے کہ تاجر ہیں تو شیخ میاں محمد اسماعیل ہیں۔ جو عزت ہندوو بیوپاریوں کے دلوں میں آپ کی تھی وہ دوسروں کی نہیں تھی۔
آپ کی دیانتداری پر ہر کسی کو بھروسہ اور اطمینان ہوتا تھا۔ چنانچہ ہندووں نے ہی آپ کو لائل پور چیمبر آف کامرس کا صدر منتخب کیا۔ ایک دفعہ سدھورام جھانگی رام ملتان کو ان کے آٹے کے بارے میں کوئی شکایت پیدا ہوئی۔ فوراً ان کو لکھ دیا کہ آٹا کی تمام گاڑیاں واپس لائل پور روانہ کردو۔ چنانچہ مال واپس آنے پر ان کو تازہ آٹے کی گاڑیاں روانہ کردیں اور کرایہ آمدورفت اور دیگر سب خرچہ اپنے ذمہ ڈال لیا۔ آپ میں کچھ ایسی ہی خصوصیات تھیں کہ ہندو بیوپاری بھی ہندووں کو چھوڑ کر آپ سے کاروبار کرناپسند کرتے تھے۔ آپ کبھی کسی کے سودے کو منسوخ نہیں کرتے تھے اکثر اوقات خرید کنندہ وقت پر مال کی ڈلیوری لینے سے قاصر رہتا اور اس عرصہ میں مارکیٹ میں تیزی آجاتی یعنی فروخت کردہ جنس کے نرخ بڑھ جاتے آپ ایسے موقعوں پر بھی کسی کا سودا منسوخ نہ کرتے اور بعد معیاد بھی خرید کنندہ کو مال کی ڈلیوری دے دیتے تھے۔ اوزان کی درستی کا بے حد خیال رکھتے۔ جس مال پر آپ کی مل کا لیبل ہوتا اسے مارکیٹ میں کوئی وزن نہ کرتا۔ اس اعتبار اور تسلی کی وجہ سے کہ آپ کا مال دوسروں کی نسبت آٹھ دس آنے زیادہ قیمت پر فروخت ہوتا تھا۔ ٹاٹا گروپ کے میاں محبوب اقبال ٹاٹا نے اپنے والد کا ایک قصہ سناتے ہوئے بتایا 1960ء کا ایک واقعہ جب ڈھاکہ سے چمڑے کا ایک جہاز کراچی آرہا تھا راستہ میں بارش کی وجہ سے چمڑے کو نقصان پہنچا۔ ملازمین نے انشورنس کمپنی کو ٹوٹل Damageکا کلیم بھجوا دیا۔ اس کلیم کی کل رقم 80ہزار روپے بنی تھی۔ انشورنس والوں نے رقم دینے کے لئے رضا مندی کا اظہار کیا تاہم یہ شرط لگادی کہ سامان ہم خود رکھ لیں اور کلیم کی رقم اسی ہزار کی بجائے 65ہزار پر لے آئیں۔ مال کا دوبارہ جائزہ لیا اور اس نتیجے پہ پہنچے کہ کلیم کی رقم ہمارے نقصان سے کہیں زیادہ ہے۔ انہوں نے چیک انشورنس کمپنی کو واپس بھجوایا، معذرت کی اور لکھا کہہ ہمارا کلیم پینسٹھ ہزار نہیں بلکہ صرف اڑھائی ہزار روپے بنتا ہے۔ اس انشورنس کمپنی کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا یہ منفرد واقعہ تھا۔ کیونکہ بزرگ کہتے ہیں کہ ساکھ ایمانداری سے بنتی ہے لالچ سے نہیں۔
ہماری موجودہ نسل دیانت دار ہے یا نہیں اس پر کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن ہمارے بزرگ تمام عمر دیانت کی بلند منزل پہ کھڑے رہے اور یہی ان کی کامیابی کا راز تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں