سلطنت اور بادشاہت کی تاریخ۔

انسانوں میں جو انسان زیادہ سفر طے کر لیتا یا یوں کہے کہ زیادہ بلندی پرپہنچ جاتا ہے وہ چونکہ اپنے سوا دوسرے ہم جنس کو پیچھے یا نیچے دیکھتا ہے،اس لیے اگرچہ وہ حقیقتاً کامل نہیں ہوتا لیکن نسبتاًکامل اور دوسرے اس کے مقابلہ میں ناقص ہوتے ہیں اور چونکہ اس نسبتاً کامل کے لیے ہمیشہ ترقی کی گنجائش باقی ہے۔ اس لیے وہ باوجود ایک نسبتی کمال کے اپنے آپ کو ناقص ہی پایا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی فطرت میں عبودیت یعنی حقیقی واہب ترقیات کی فرماں برداری ودیعت کی گئی ہے۔ جو انسان سب سے اوپر اور سب سے آگے نظر آتا ہے وہ چونکہ مقابلے میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ دوسرے حیوانات اپنی طاقتوں میں محدود رکھے گئے ہیں اور پیدائشی طور پر ان کے حسب ضرورت محدود سامان ان کی کوششوں کی بدولت ان کو دے دیا گیا ہے۔ لیکن انسانوں کو موقع دیا گیا ہے کہ جس قدر سعی وکوشش کرے گا اسی قدر ترقی کا میدان اپنے سامنے وسیع پائے گا۔انسان کو دوسرے حیوانات کے مقابلے میں ترجیح و فوقیت بخشی گئی ہے۔
اس مدعا کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ انسان ہر وقت سفر میں رہنے اور پستی سے بلندی کی طرف انتقال کرتے رہنے کے لیے پیداکیا گیا ہے۔انسانوں میں جو انسان زیادہ سفر طے کر لیتا یایوں کہے کہ زیادہ بلندی پر پہنچ جاتا ہے وہ چونکہ اپنے سوا دودسرے ہم جنسوں کو پیچھے یانیچے دیکھتا ہے اس لیے اگرچہ وہ حقیقتاً کامل نہیں ہوتا لیکن نسبتاً کامل کے لیئے ہمیشہ ترقی کی گنجائش باقی ہے۔ اس لیے وہ باوجود ایک نسبتی کمال کے اپنے آپ کو ناقص ہی پاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ انسان فطرت میں عبودیت یعنی حقیقی واہب ترقیات کی فرماں برداری ودیعت کی گئی ہے۔ جو انسان سب سے اوپر سب سے آگے نظر آتا ہے و ہ چونکہ ایک مجازی اور نسبتی خیال رکھتا ہے لہذا عام انسان اپنی فطرت کے تقاضے سے مجبور ہیں کہ اس کے سامنے فرماں برداری کا اظہار کریں اور یہی فلسفہ ہے بادشاہت اور حکومت کرنے کا۔ اور اس سے یہ بات یہ مقولہ بھی سمجھ آتا ہے کہ انسان دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہوتا ہے۔ اس بات کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بادشاہ یا فرمان روانسبتی کامل ہے اور نہ ہی حقیقی۔ کیونکہ حقیقی کمال جس بھی وجود میں پایا جائے گا وہ مطلق ہوگا نہ ہی محدود ہوگا اور نہ ہی وہ محیط ہوگا اور نہ ہی محاط و منفرد ہوگا اس کے علاوہ باقی نہ فانی ہوگا اور نہ واجب ہوگا اور نہ ممکن وغیرہ اور اسی ذات الوجود کا نام اللہ تعالیٰ ہے جو ہر ایک نقص، عیب اور برائی سے پاک ہے۔ یہ انسانی فطری تقاضا ہے کہ ہر ایک انسان اپنے سے نیچے زیر فرمان دیکھنے کی خواہش کرتا ہے اور یہ ایک فطری تقاضا ہے۔ چونکہ انسان اپنی فطرت کے خلا ف کرنے اور اپنی قوتوں کو ترقی دینے کی بجائے تنزل کرنے کی بھی استعداد رکھتا ہے۔
نافذ الفرمان ہونے کی دو بڑی قسمیں ہیں ایک روحانی اور دوسری جسمانی یا آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں ایک نبوت اور دوسری سلطنت۔
وہ کمالات جن کا سلطنت اور مادی حکومت سے تعلق ہے اور جو حکومت و فرمانبرداری کا موجب بنتے ہیں ان کا تذکرہ طالوت اور داود کی بادشاہتوں کے ذکر میں اس طرح بیان ہوا ۔ ترجمہ اللہ کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے طالوت کو بادشاہ بنایا ہے۔ بنی اسرائیل نے طالوت کی بادشاہت کا حال سن کر اعتراض کیا تو جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارے اوپر بادشاہت کرنے کے لیے منتخب فرمایا ہے اور طالوت کو علم او رجسم میں فوقیت حاصل ہے۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ جس شخص کو کسی قوم کی عصبیت کا مرکز بننے اور علمی و جسمانی طور پر فوقیت حاصل کرنے کا موقع ملا وہ فوراً اس قوم کا فرمانر وا اور سلطان تسلیم کرلیا گیا۔ آج سے تین ہزار سال پہلے تک قوت جسمانی اور پہلوانی و بہادری ہی حکومت و سلطنت حاصل کرنے کے لیے ضروری سمجھی جاتی تھی۔ جس میں یہ خصوصیات نہیں تھی وہ اس قابل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس کے بعد نسل انسانی میں جوں جوں بتدریج صفات پیدا ہوتے گئے اسی مناسبت سے بادشاہوں کے چناو ان کی صفحات او ر شرائط میں اضافہ ہوتا گیا۔ غرض یہ کہ دنیا میں ہمیشہ بادشاہ کا مفہوم بہترین اور قیمتی انسان رہا ہے اور فتنہ و فساد کے ہنگامے قتل و غارت کے حوادث اسی وقت رونما ہوئے جبکہ غیر مستحق یعنی ناقابل بادشاہت شخص کو تخت حکومت پرجگہ ملی۔
ہر بزرگ خاندان اپنی صفات حسنہ کی بدولت اپنے خاندان والوں کا بادشاہ ہے زمانہ قدیم میں چھوٹے چھوٹے قبیلے ہوا کرتے تھے تو ہر قبیلہ کا سربراہ اس قبیلے کا بادشاہ ہی کہلواتا تھا اسی طرح سرحدی امور کے متعلق دیکھ بھال کرنے والا اس علاقے کا بادشاہ کہلواتا تھا یہ یہ رسم نوع انسانی کے ابتدائی زمانوں سے ہی چلتی آرہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں