شخصیت کا راز الفاظ کا بہترین چُناو ہے۔

جب دوسرے لوگوں سے کوئی معاملہ کرنا ہوتو کوشش کرو کہ انہیں اذیت مت دو خواہ وہ کوئی رومانوی معاملہ ہو یا کاروباری۔ کئی سال پہلے کی بات ہے جب میرے کاروبار میں کوئی مسلہ کھڑا ہوتاہے تو میں عملے کے متعلقہ فرد کو بلا کر کہتا ہومیں ا س مسلے پر بہت پریشان ہوں۔ یہ بات سن کر وہ شخص خود بخود فاعی حالت میں آجاتا۔ یہ زبان کے منفی استعمال کی ایک مثال ہے اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اس مسلے کو مل کر حل کرنے سے قاصر ہوجاتے تھے۔
اس کے برعکس میں معاملے پر تھوڑا سا فکر مند ہوں۔ کیا تم میری مدد کرسکتے ہو؟ اس جملے کا پہلا اثر تو یہ ہوتا ہے کہ خود میری جذباتی شدت میں کمی آجاتی ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا شخص بھی تعاون کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے سوال یہ ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ”فکر مند ہونے“ کا لفظ ”پریشان ہونے“ کے لفظ سے بہت مختلف ہے۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ فلاں شے سے پریشان ہوتو اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ آپ کو متعلقہ شخص کی اہلیت پر اعتماد نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ فکر مند ہونے کے ساتھ تھوڑا سا اضافہ کردینے سے جملے میں زیادہ نرمی آجاتی ہے۔ چنانچہ میں اپنی شدت کم کرکے اس قابل ہوجاتا ہوں کہ فریق ثانی بہتر انداز میں جواب دے سکے اور اس طرح میرے لیے اپنے ملازمین کو اپنی بات سمجھانا زیادہ آسان ہوگیا ہے۔
کیا آپ نے سوچا ہے کہ اس طرح گھرمیں تمہارے تفاعل کس طرح بہتر ہوسکتے ہیں؟ کیا آپ نے سوچا ہے کے آپ اپنے بچوں کے ساتھ عادتاً کس طرح بات کرتے ہیں؟ہمیں اکثر اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ جن الفاظ میں گفتگو کرتے ہیں اس کے ان پر کیا اثرات ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں نہ صرف بچے بلکہ بڑے بھی ہر با ت کو شخصی طور پر لیتے ہیں پس یوں مت کہو تم احمق ہو اس سے بچے میں خود اعتمادی گھٹ جاتی ہے۔
چنانچہ بچوں سے نرم اور بہتر الفاظ میں گفتگو کرنے کی عادت ڈالو۔ اگر تم یہ کہو میں تمہارے فلاں رویے سے تھوڑا سا غصے ہوں۔ ادھر آو اس پر بات کرتے ہیں اور تمہارے رویے کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو اس سے بچہ یہ سمجھتا ہے کہ خامی اس میں نہیں بلکہ رویے میں ہے۔ جس کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس سے دو افراد کے درمیان، حقیقت کا پل بن جاتا ہے۔ جس سے ان کے مابین زیادہ طاقتو ر اور مثبت افہام و تفہیم پیدا ہوتی ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کے آپ کو اپنے پیٹرن توڑنے کا اہل ہونا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو پچھتاوے کا شکار ہوگے۔ اکثر رشتے اسی وجہ سے ٹوٹ جاتے ہیں ہم غصے میں ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو دوسرے شخص کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہیں اور وہ اس کا جواب دینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ہم سے رشتہ توڑنے کا فیصلہ کرلیتا ہے چنانچہ ہمیں اپنے لفظوں کی قوت سے آگاہ ہونا چاہیے۔ ان سے بھی جو تخلیق کرتے ہیں اور ان سے بھی جو تباہ کرتے ہیں۔

جرمن لوگ جنگ پسند نہیں ہیں وہ جنگجو ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وجنگ نہیں چاہتے لیکن اس سے ڈرتے بھی نہیں ہیں۔ اگرچہ وہ امن سے محبت کرتے ہیں لیکن وہ اپنے وقار اور آزادی سے بھی محبت کرتے ہیں۔

(ایڈولف ہٹلر)

اپنا تبصرہ بھیجیں