عجائبات ارض ( سیارہ زمین پر ہوا کیسے چلتی ہے۔۔۔؟ )

اس وقت تک دریافت ہونے والے تمام سیارو‌ں میں زمین واحد سیارہ ہے جس کی آب و ہوا رہنے کے لیے موزوں ہے۔ پانی کی لہریں چاند کی کشش ثقل کے علاوہ ہوا کی مدد سے بھی اٹھتی ہیں۔
ہوا جب تیزی کے ساتھ سمندر سے ٹکراتی ہے یا جب سمندر کی سطح پر جھکڑ بناتی ہیں تو لہریں وجود میں آتی ہیں۔ ہوا صرف زمینی ہی نہیں بلکہ آبی مخلوقات کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔
ہوا زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے خاص طور پر کشش ثقل کی ایک مخصوص مقدار کے ساتھ۔
ہماری زمین کی کشش ثقل ہی ہے جو ہوا کو زمین سے جوڑے ہوئے ہے۔ ہمارے اوپر کئی من ہوا کا دباؤ ہے۔ جس کی وجہ سے ہم ہمارا اندرونی اور بیرونی دباؤ برقرار رکھتے ہیں۔
ہوا میں موجود آکیسجن ہمارے خلیوں کو خون کے ذریعے مہیا کی جاتی ہے۔ ہمارے خون میں ایک ٹیکسی کا کام کرنے والی پروٹین موجود ہے۔ جو آکسیجن کو لے کر ہر خلیے کے پاس جاتی ہے اور ان سے کاربن ڈائی آکسائیڈ لے کر واپس آتی ہے، اور اسے ہیموگلوبن کہتے ہیں۔

آکسیجن کی موجودگی تمام گیسوں کے زمینی تناسب کے حساب سے فی الحال کسی سیارے پر دستیاب نہیں۔ سائنس اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہے تاکہ مریخ پر یا کسی اور سیارے پر پانی اور آکسیجن کی موجودگی کا پتہ چلایا جاسکے، یا مصنوعی فضا بنائی جاسکے۔ مگر ابھی تک ایسا کرنا بہت مشکل لگتا ہے، ہوا بہت سے کام کرتی ہے۔

تھوڑا سا قرآن کریم پر بھی نظر ڈالتے ہیں کہ اس میں ہواؤں کا ذکر کس طریقے سے کیا گیا ہے؟

وَٱلْمُرْسَلَٰتِ عُرْفًا (۱)

ہواؤں کی قسم جو نرم نرم چلتی ہیں۔

فَٱلْعَٰصِفَٰتِ عَصْفًا ( ۲)

پھر زور پکڑ کر جھکڑ ہو جاتی ہیں،

وَٱلنَّٰشِرَٰتِ نَشْرًا ( ۳)

اور (بادلوں کو) پھاڑ کر پھیلا دیتی ہیں۔

فَٱلْفَٰرِقَٰتِ فَرْقًا ( ۴)

پھر ان کو پھاڑ کر جدا جدا کر دیتی ہیں۔

ہوا کی تین قسمیں ہیں:

ایک جو سفید بادلوں کے ساتھ آتی ہیں۔ انہیں نرم ہوائیں کہا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اللّٰه رب العزت نے ان کی قسم بھی کھائی ہے۔

دوسری قسم ہواؤں کی وہ ہے جو سرخ بادلوں کے ساتھ آتیں ہیں اور ان میں زیادہ مقدار میں آندھی و طوفان اور جھکڑ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ یہ ہوا بہت خطرناک ہوتی ہے۔

اور تیسری قسم ہواؤں کی وہ ہے جو کالے بادلوں کے ساتھ آتی ہیں یہ تیز بھی ہوتی ہیں اور دھیمی بھی۔ یہ وہ ہوا ہے جو پانی کو لیے اڑتی ہے۔ اور کالے بادلوں کو لے کر چلتی ہے۔

ہماری فضا میں یعنی ہوا میں آکسیجن، نائٹروجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مختلف گیسیں شامل ہیں۔ انہیں گیسوں کی وجہ سے ہمارا فضائی نظام برقرار ہے۔

ہوا کا کام کیا ہے؟
ہوا کا کام سورج سے آنے والی گرمی کو اپنے اندر جمع کیے رکھنا ہے۔
اگر ہوا نہ ہو تو کیا ہوگا؟
پہلے تو ہمارے جسم کے چیتھڑے اڑ جائیں گے۔ یعنی کہ ہم کسی بم کی طرح پھٹ جائیں گے۔
دوسرا یہ کہ ہماری فضا نہ ہونے کی وجہ سے رات کے وقت سردی نقطہ انجماد سے نیچے چلی جائے گی۔
یعنی کہ ہر شے جم جائے گی اور کبھی بارش بھی نہی ہوگی۔

جب دن کے وقت زمین گرم ہوتی ہے تو رات کے وقت اتنی جگہ سے گرمی خارج ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

زیادہ تر طوفان یا تو ساحلی علاقوں میں آتے ہیں یا ریگستانی علاقوں میں۔ ریگستانی علاقے زیادہ تر زمین کے وسطی حصے میں ہی مشرق سے مغرب تک پھیلے ہوئے ہیں۔ باقی آسٹریلیا اور امریکہ کے بعض علاقوں میں بھی ریگستان ہیں اس کی بنیادی وجہ زمین کا 23.5 ڈگری کا جھکاؤ ہے۔
ان علاقوں میں ایشیاء اور افریقہ کے ممالک کی کثرت ہے۔ ہوا زمین سے پانی کو بھاپ کی شکل میں اٹھا کر لے جاتی ہے اور پھر بارش کی شکل میں زمین پر برساتی ہے۔

اب بارش کیسے ہوتی ہے؟
اس پر انشاءاللہ ایک الگ مضمون لکھوں گا۔ اس کے پیچھے بھی ایک دلچسپ موضوع ہے۔

جب زمین گرم ہوتی ہے تو پانی بھی جو کہ تالابوں اور جھیلوں میں ہوتا ہے گرم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہوا آسانی سے پانی کو اٹھا کر لے جاتی ہے۔ ہوا ایک زبردست انسولیٹر ہے۔
ایک بات اور یاد رکھیں کہ جب بھی کوئی مائع یا گیس چیز گرم ہوتی ہے تو وہ ہمیشہ انرجی کے ملنے کی وجہ سے اوپر کی جانب چلی جاتی ہے۔ ٹھنڈی ہوا ہو یا مائع ہمیشہ نیچے کی جانب آئے گا۔
اسی وجہ سے گھروں اور دفتروں میں AC بھی اونچائی پر ہی لگائے جاتے ہیں۔ کیونکہ کمرے میں اوپر چھت کے نزدیک ہوا زیادہ گرم ہوتی ہے بانسبت نیچے فرش والی ہوا کے،
دوسرے سیاروں پر بھی ہوا موجود ہے لیکن ان میں آکسیجن نہ ہونے کے برابر ہے، یعنی کہ ان کی تمام ہواؤں کا تناسب اگر دیکھا جائے تو آکسیجن نہ ہونے کہ برابر لگتی ہے اور ان ہواؤں کا پریشر بہت زیادہ ہے۔

عطارد (جیوپیٹر) پر چلنے والا چھوٹا جھکڑ زمین کے تمام بڑے جھکڑوں کے برابر کا ہوتا ہے۔

قدیم مذاہب کے نزدیک:

قدرت کی اس کائنات (یونیورس) میں پانچ طاقتیں ہیں۔
ہوا،
مٹی،
بجلی،
پانی اور
آگ۔

ہوا کا تو ذکر ہو چکا ہے۔

مٹی سے مراد تمام سیاروں کی ریتلی و پتھریلی چٹانیں اور تمام دھاتیں اس میں شامل ہیں۔ خواہ وہ پگھلی ہوئی ہوں یا ٹھوس شکل میں ہوں۔

بجلی سے مراد تمام برقی اور روشن ذرات ہیں۔ جن میں فوٹان، مگنیٹک، الیکٹرک چارجز وغیرہ شامل ہیں۔

پانی سے مراد ہر مائع چیز ہے۔

اور آگ سے مراد حرارت والی چیزیں۔ جن میں سورج اور دیگر ستارے شامل ہیں۔

قدیم مفکروں اور جادوگروں کا خیال تھا کہ جس نے ان پانچ چیزوں پر قابو پا لیا وہ اس دنیا کا سب سے زیادہ طاقت ور انسان ہے۔
ہندو آج بھی ان چیزوں کی پوجا کرتے ہیں۔

ان چیزوں پر قابو پانے کے لیے کائنات کی روح سے تعلق قائم کرنا پڑتا ہے۔ غور و فکر (میڈیٹیشن کا علم رکھنے والے) اور ماہر نفسیات (سائکولوجسٹ) اس بات کو مانتے ہیں۔

سائنس صرف فلکیات یا طبیعیات تک محدود نہیں ہے۔ سائنس ایک لاطینی لفظ ہے جس کا اردو میں مطلب “اصولوں کا علم” ہے۔

زمین و آسمان، آگ، پانی اور ہوا کی روح موجود ہے۔ کائنات کی ہر چیز اپنی ایک فریکوئنسی رکھتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں