عفو ودرگزر اور معافی و بخشش کی ایک زبردست مثال ۔

گزشتہ کئی سالوں کے دوران ایک قومی جریدے کا سرورق بہت ہی متاثر کن یادگاری حیثیت کا حامل تھا۔ یہ پوپ جان پال دوم کی ایک ایسی تصویر تھی جس میں پوپ جان پال دوم، قید خانے کی ایک کوٹھڑی میں ایک ایسے شخص کیساتھ بیٹھا ہوا تھا جس نے اسے قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ عفوودرگزر اور معافی و بخشش کے اس منظر نے مجھ پر بہت ہی گہرا اثرمرتب کیا جن لوگوں کو ہم مقدس، روحانی یا نیکیوں کا نمونہ سمجھتے ہیں وہ ہمیشہ اور ہر حال ہی میں معافی و بخشش کا رویہ اپنانے کی اہلیت و استعداد رکھتے ہیں۔ جن لوگوں نے انہیں نقصان پہنچایا ہوتا ہے ان لوگوں کے لیے ان کے دل میں غصے، ناراضگی، نفرت یا انتقام کا شائبہ تک نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی طرف سے معافی و بخشش اور عفوو درگزر کا ایک ایسا نمونہ پیش کرتے ہیں جسے ہی ہم اپنی زندگیوں میں راہنما کی حیثیت سے اختیار کرسکتے ہیں۔ شاید وہ تصویر جس میں یسوع مسیح اپنے مخالفین اور ایذارسانوں کو معاف کررہے ہیں اس روحانی پیشوائی شخصیت کے اس پہلو کا سب سے زبردست اظہار ہے۔
جو لوگ دوسرے لوگوں کو مصیبتوں اور پریشانیوں میں مبتلا کررہے ہیں۔ واقعی اور حقیقی طورپر نہیں جانتے کہ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ کس قسم کے فعل کے مرتکب ہورہے ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ اپنے غصے، ناراضگی، نفرت اور الزام تراشی یا انتقام پر مبنی سوچ کے باعث یہ رویہ اور طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ یہ لوگ جس قسم کا رویہ اور طرز عمل دوسروں لوگوں کے ساتھ اختیار کرتے ہیں اس کے باعث ہم دوسروں کی زندگی سے آگاہ نہیں ہوتے بلکہ ان کی اپنی زندگی ہی اسے رویے اور طرز عمل کے باعث آشکار ہوجاتی ہے۔ اور یہی مرحلہ ہے جب آپ کو عفوودرگزر اور معافی و بخشش کی اصلاح کے متعلق فہم و بصیرت حاصل کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے جن لوگوں نے آپ کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہو جو آپ کو پسند نہ ہو یا آپ اس کے باعث رنج اور دکھ ک آشکار ہوگئے ہوں واقعی اور حقیقی طور پر نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قسم کا رویہ آپ کے ساتھ روا رکھا ہے۔ آپ ان سے جائز طور پر یہ پوچھ سکتے ہیں کہ ان کے اس رویے کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ وہ یہ ادراک نہیں کرسکتے ہیں کہ ہم سب آپ میں مربوط و منسلک ہیں۔ وہ انفرادی حیثیت سے زندگی بسر کررہے ہیں وہ کائنات کی ہر شے سے خود کو علیحدہ سمجھتے ہیں۔ وہ بدن میں موجود کینسر کے ایک خلیے کی مانند ہیں جن کا کل سے کوئی تعلق نہیں۔ چونکہ یہ لوگ نفرت، عدم، توازن، غصے، ناراضگی اور انتقام کا مجوعہ ہیں اس لیے وہ اپنے ساتھ موجود دوسرے انسانوں سے بھی اسی طرح کا سلوک روا رکھتے ہیں اور اپنے اسی رویے کے باعث خود کو بھی تباہ کر ڈالتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس تمام کائنات کے لیے بھی تباہی کا سامان بنتے ہیں آپ کینسر کے کسی خلیے کو اپنی یہ حیثیت اختیار کرنے پر مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں؟
جب آپ اس احساس و فکر میں مبتلا ہوں کہ آپ دیگر تمام انسانوں سے مختلف جداگانہ اور انفرادی حیثیت رکھتے ہیں تو آپ دوسروں کے ساتھ ہمدردانہ اور محبت آمیز سلوک اختیار نہیں کر سکتے۔ جب آپ کو یہ ادراک اور بصیرت حاصل ہوجاتی ہے کہ دوسروں لوگوں کے برے سلوک کے باوجود آپ تمام انسانوں سے منسلک اور مربوط ہیں تو آپ اس تمام کل یعنی انسانوں اور انسانیت کا ایک حوالہ بن جاتے ہیں اسی نئی آگہی اور ادراک کے ذریعے ہم اپنی زندگی میں ایک راہنما اصول کی حیثیت سے معاف کردینے کی صلاحیت سے سرفراز ہوجاتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں