فیصلہ سازی ایک اہم خوبی فیصلہ ہی آپ کی منزل کا تعین کرتا ہے۔

فیصلہ سے پہلے مشورہ:
جو لوگ فیصلہ کرکے بدل جاتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ پہلے رکیں، معاملہ سمجھیں غور کریں اور کسی سے مشورہ کریں۔ مشورہ کرنا سنت ہے اور اس میں بڑی قوت ہے۔ جب کسی سے مشورہ کیا جاتا ہے تو اس سے اس کی عقل بھی اس فیصلے میں شامل ہوجاتی ہے اور اس طرح فیصلے بہتر بھی ہوجاتے ہیں اور آدمی اپنے فیصلوں پر قائم بھی رہتاہے۔ غلط فیصلے بھی کچھ نہ کچھ ضرور دے کر جاتے ہیں۔ کہاجاتا ہے برا وقت بہت کچھ چھین کر جاتا ہے لیکن برا وقت بہت کچھ سیکھا کر بھی جاتا ہے۔غلط فیصلوں سے آدمی جو کچھ سیکھتا ہے دراصل وہ قیمت ادا کرتا ہے۔ وہ قیمت عقل اور دانش کی صورت میں ہوتی ہے۔یہ عقل و دانش آدمی کی زندگی کو قیمتی بناتی اور اس سے منسلک لوگوں کو بھی فاہدہ ہوتا ہے۔
جہاں اللہ تعالیٰ کا بندے پر بے شمار کرم ہے بے شمار فضل ہے وہاں عقل اور شعور کامل جانا، دانش حاصل ہوجانا بھی اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کرم ہے۔

مناسب وقت کا انتطار:
جولوگ مناسب وقت کی تلاش میں رہتے ہیں وہ کبھی فیصلہ نہیں کر پاتے۔ حضرت شیخ شعدی فرماتے ہیں جو کہتا ہے میں کل بدلوں کا، اس کا کل کبھی نہیں آتا، مناسب وقت کا بہانہ بڑی نالائقی ہے۔ اگر آپ نے مناسب وقت میں فیصلہ کرنا ہے تو اس کے لئے دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ایک اس بات کی عادت نہیں چاہیے کہ میں مناسب وقت کا بہت زیادہ انتظار کررہا ہوں۔ کسی معاملے میں فیصلہ کرنے سے پہلے سوال کیجئے کہ اس فیصلہ کو کب تک ٹالا جاسکتا ہے اس کا ایک وقت ہے۔ اس کے بعد فیصلہ نہ کرنے سے نقصان ہوگا۔ یہ نقصان فیصلے میں تاخیر کی واضح علامت ہے۔ دوسری بات یہ کہ مناسب وقت وہ بہترین وقت ہوتا ہے جب آدمی تکلیف میں ہوتا ہے، کیونکہ انسان تکلیف میں رہ کر سب سے زیادہ سیکھتا ہے کہ اب مجھے یہ غلطیاں نہیں دہرانی۔
جب آدمی غلطیوں سے سیکھ کر فیصلہ کرتا ہے تو وہ تبدیلی کا وقت ہوتا ہے۔ آئیڈیل وقت وہ ہوتا ہے کہ جس وقت آدمی کے پاس علم آجائے شعور آجائے سمجھ آجائے، بعض اوقات ہمیں تھوڑی سی ہمدرری چاہیے ہوتی ہے، تھوڑا سا ساتھ چاہیے ہوتا ہے کندھا چاہیے ہوتا ہے جب کندھا مل جائے ساتھ مل جائے، عقل مل جائے اور ہمدردی مل جائے تو یہ بھی فیصلے کے لئے آئیڈیل وقت ہوتا ہے فیصلے کا بہترین وقت وہ بھی ہوتا ہے کہ جب آپ سمجھتے ہیں کہ میں اس قابل ہوگیا ہوں کہ میں فیصلے کے بعد اس کے نتائج کو سنبھال سکتا ہوں۔
بے شمار لوگ فیصلہ کر لیتے ہیں لیکن اس کے نتائج کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اگر آپ فیصلہ کرکے یہ کہنے کے لئے تیار ہوگئے ہیں کہ اب طوفان آئے بادو باروں آئے، کچھ ہوجائے میں نتائج قبول کروں گا تو پھر یہ جرات اور یہ ہمت فیصلے کے لئے مناسب وقت تخلیق کردیتی ہے۔
ماہرین اور دانشور اس بات کے قائل ہیں کہ کبھی بھی غصے اور خوشی کی کیفیت میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے، یعنی وہ تمام حالیتیں جس میں آدمی جذبات میں قید ہو، اس کیفیت میں کبھی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ وہ تمام فیصلے جو فرد نے شدید جذباتی کیفیت میں کیے جاتے ہیں زیادہ تر ان پرپچھتانا پڑتا ہے۔
حضرت واصف علی واصف فرماتے ہیں، غصہ وہ شیر ہے جو پورے مستقبل کو بکرا بنا کر کھا جاتا ہے ناامیدی کی حالت میں بھی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس حالت میں اندر کی آنکھ ایسی تصویریں دکھارہی ہوتی ہے جس سے لگتا ہے مستقبل اچھا نہیں ہے۔ اس حالت ناامیدی کے جذبات غالب ہوتے ہیں۔
جب بھی فیصلہ کریں تو دیکھیے کہ ہمارے دماغ کا حقیقت پسندانہ حصہ کتنا متحرک ہے کیونکہ وہ اعدادو شمار بناتا ہے، خطرات کا جائزہ لیتا ہے مستقبل کا سوچتا ہے اور اندازہ لگاتا ہے۔

زندگی ایک لمحے میں بدل سکتی ہے:
زندگی میں صدیوں میں، سالوں میں مہینوں میں اور دنوں میں نہیں بدلتی بلکہ زندگی ایک لمحے میں بدل جاتی ہے اور وہ لمحہ وہ ہوتا ہے کہ جب آدمی فیصلہ کرتا ہے کہ مجھے اپنی زندگی بدلنی ہے۔ اگر دو سمتیں بنی ہوں، ایک پر اوسط لکھا ہو اور ایک پر یادگار اور آپ فیصلہ کرنا ہوکہ مجھے باقی کی زندگی معیاری اور اعلیٰ گزارنی ہے تو اپنیاندر کی تصویر میں یادگار کو نشان ذد کیجئے۔ اس دنیا میں مثالیں دینے والے بے شمار ہیں لیکن مثال بننے والے بہت کم ہیں۔ مثال بننے والے انسان بنیں۔ کہا جاتا ہے اس دنیا میں نہ کوئی کامیاب ہے اور نہ کوئی ناکام ہے۔ اس دنیا میں صرف انتخاب ہے اور انتخاب فیصلوں سے ہوتا ہے اپنے فیصلوں میں برکت ڈال دیتا ہے۔ وہ فیصلے نہ صرف اچھے نتائج دیتے ہیں بلکہ ان فیصلوں میں برکت ڈال دیتا ہے۔اس کے علاوہ ایسے فیصلوں سے دوسروں کا بھی فائدہ ہوتا ہے۔ ہم کتنے قیمتی انسان ہیں جب ہم بدلتے ہیں تو کتنا کچھ بدل جاتا ہے اس لیے سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلنے کا فیصلہ کیجئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں