مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی ماں ’’ بی اماں ‘‘ کا تحریک پاکستان میں کردار ۔ ؟

1925ء میں جب مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی تحریک خلافت کا چرچا گھر گھر ہوچکا تھا سخت ترین پردے میں رہ کر مسلمان خواتین تحریک خلافت میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہی تھیں ، غیر ملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کا قصہ روز افزوں تھا ، سینکڑوں چرخے تیار کرکے دیہاتوں میں تقسیم کئے گئے تھے ۔ خواتین میں چرخے کا تنے کا شوق پیدا کرنے کیلئے انعام و اکرام بھی دئیے جاتے تھے ۔ سوت کات کر تیار ہونے والی کھدر کو مختلف رنگ برنگے طریقوں سے دیدہ زیب اور دلکش بنایا جاتا تھا اور کشیدہ کاری و کار چوب کے ہنر کے ذریعے مختلف مصنوعات تیار کی جاتی تھیں ۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کو گرفتار کیا جاچکا تھا ۔ گلی کوچوں میں لڑکے مندرجہ بالا گیت گاتے پھرتے تھے ۔ کچھ کتا بچے بھی چھپے جن میں دیگر نظموں کے ساتھ ساتھ یہ مکمل گیت بھی موجود تھا ۔
بی اماں سرخ و سفید رنگ ، اونچی سی ناک ، سفید براق بال ، نہ دبلی نہ موٹی ،کمر جھکی ہوئی ، چہرہ نورانی ، عظمت اور صبر کی ملی جلی تصویر ایک پردہ نشین خاتون جنہوں نے نہ کبھی کسی اسکول سے تعلیم پائی نہ کسی کالج سے مگر بیٹوں کو قوم اور اسلام پر مرنا سیکھادیا ۔ ان کا درس قوم کبھی فراموش نہیں کرسکے گی ۔ ان کے دل میں قوم کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ جب مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی گرفتار رہے تو بی اماں کے پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آئی بلکہ انہوں نے ایک موقع پر فرمایا کہ میں تو خوش ہوں کہ میرے بیٹوں کے دل میں قوم کا درد ہے اور جو کام شروع کیا جاتا ہے وہ سوچ سمجھ کر ہی شروع کیا جاتا ہے جب اوکھلی میں سردیا تو مسلوں کا کی ڈر ۔ یہ تو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ گرفتار ہوجائیں گے تو اگر مافیاں مانگ کر آنا ہے تو پھر ایسا کام ہی نہیں کرنا چاہیئے ۔ آخر انسان کا اپنا وقار بھی تو ہوتا ہے ۔ تحریک خلافت خواتین میں چرخوں کی صورت میں پھیل رہی تھی ۔ بدیشی مال کا بائیکاٹ جاری تھا اور بی اماں ایسی صورتحال میں بھی جرات استقامت اور صبر کی علامت بن کر مسلمانان ہند کے دلوں پر چھاتی رہیں ۔ ان کے تدبر اور فہم و فراست کی ادنی سی مثال یہ ہے کہ مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی سیاست اور تحریک خلافت کے تمام فیصلے بی اماں کے مشورے سے طے کرتے ۔ بی اماں کا فیصلہ حتمی ہوتا تھا کیونکہ وہ دوربین نگاہوں کی مالک اور تجربات بین خاتون تھیں ۔
1922ء میں جب ترکی کا معاملہ درپیش تھا تو خلافت کمیٹی کا اجلاس بی اماں کی زیر صدارت منعقد ہوا تھا اس اجلاس میں ملک کے تمام علماء اور رہنما تحریک تھے وہ ایک بہترین ماں تھیں ۔ مولانا محمد علی جوہر اکثر کہا کرتے تھے ماں کی اصل خوبصورتی اس کی محبت ہے اور ماں دنیا کی خوبصورت ترین ماں ہے ہماری ماں نے ہم کو زندہ رہنے اور آزادی سے زندگی گزارنے کا سبق دیا ہے ۔
برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں جو خواتین شہرت عام اور بقائے دوام کی حقدار پائیں ان میں آبادی بیگم کا نام ہمیشہ لیا جاتا رہے ۔ اگر یہ ایک سچی مومنہ ، نیک طبیعت ، پاکباز ، مدبرہ ، معاملہ فہم فیاض ، جرات مند ، حب الوطن ایثار و قربانی اولو العزم ہستیوں میں سے تھیں اور عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کے لئے بھی لائق تقلید تھیں آبادی بیگم نام مگر شہرت بی اماں کے نام سے ہوئی ۔
بی اماں کی پیدائش 1852ء میں ہوئی ان کے والد نے جنگ آزادی 1857ء میں دین اور وطن کی خاطر بھرپور حصہ لیا تھا اور شہادت بھی پائی ۔ والد کے انتقال کے وقت بی اماں کی عمر صرف پانچ سال کی تھی ۔ اپنے عظیم المرتب فرزندوں کے سبب لوگوں میں بی اماں سے مشہور ہوئیں ۔ ان کی شادی رامپور کے ایک معزز آدمی عبدالعلی خان سے ہوئی ان سے بی اماں کے سات بچے ہوئے جن میں چھ لڑکے اور ایک لڑکی تھی ۔
بی اماں کے اندر جو اسلام کا درد اور خدا رسول ﷺ کی محبت اور اپنے بڑوں کی پیروی تصنع و تکلیف سے دور بلاشبہ عورتوں اور مردوں کے لئے لائق تقلید ہیں ۔ بی اماں خود کہتی ہیں کہ تعلیم کے زمانے میں شوکت و محمد کو انگریزی معاشرت سے بچنے کی تاکید کرتی تھیں ۔ پھر بی اماں کی اولاد ہی میں سے مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی آسمان شہرت پر آفتاب بن کر خود بھی چمکے تھے جن کو علی برادران کہتے ہیں اور ان کی والدہ بھی چمکیں ۔
انگریز حکومت نے اسی سلسلے میں ستمبر 1921ء کو مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی اور اس تحریک کے رہنماوں کو گرفتار کرلیا اور ان رہنماوں پر کراچی خالق دینا ہال میں 26ستمبر 1921ء کو مقدمہ چلایا جو یکم اکتوبر 1921ء تک جاری رہا اسی واقعہ کو بی اماں نے ایک موقع پر جب خلافت اور مسلمانوں کی تباہی کا ذکر کرنے لگیں تو نہایت جوش میں آگئیں جس سے ان کے کمزور اور لاغر ہاتھ کانپنے لگے فرمایا کہ جب شوکت اور محمد گرفتار ہوگئے تو میں بڑھیا اپاہج ( عورت) جس کوچارپائی سے اٹھنا بھی دشوار تھا کراچی جانے کیلئے تیار ہوگئی اور کراچی پہنچ کر میں نے شوکت سے کہا میں اس قابل تو نہیں تھی لیکن اگر اس آخری عمر میں تم لوگوں کے طفیل مجھ پر اسلام کی خدمت ہوسکے تو بڑی خوش نصیبی کی بات ہوگی اور فرمایا کہ میں نے اپنا کفن تیار کرکے ساتھ رکھ لیا ہے اور اشفاق ( سیکرٹری علی برادان ) سے میں نے کہہ دیا ہے کہ عمر کا کیا ٹھکانہ اگر سفر میں موت آجائے تو میرے مسلمان بھائیوں سے میرے لیے دو گز زمین مانگ کر مجھ کو فنا دینا ۔
اسی زمانے میں یاسین نام یا تخلص والے صاحب نے صدائے خاتون کے نام پر یہ نظم لکھی جو بڑوں ، نوجوانوں ، بچوں سب کی ہی زبان پر دیکھتے ہی دیکھتے چڑھ گئی ۔
اس بارے میں نصراللہ خان عزیز فرماتے ہیں کہ موجودہ نسل کو شاید معلوم بھی نہ ہو کہ تحریک خلافت کے زمانے میں ہندوستان کے درو دیوار راس کمہاری سے پشاور اور کراچی سے آسام کی پہاڑیوں تک اس نظم کے جوش پرور نغموں سے گونج اٹھے ۔

ہو تمہی میرے گھر کا اجالا

تھا اسی واسطے تم کو پالا

کام کوئی نہیں اس سے اعلیٰ

جان بیٹا خلافت پہ دے

اپنا تبصرہ بھیجیں