ِمسلہ فلسطین کا مسلہ کشمیر سے کیا تعلق ہے۔۔؟

فلسطین اور کشمیر کا جو بنیادی جواز ہے اور جو مسلہ ہے وہ یونائیٹڈ نیشن ریزولوشن پر ہے اور اس کے اندر جو اسرائیل کا کردار فلسطین کے اندر ہے اور اسی طرح جو کردار بھارت کا کشمیر کے اندر ہے دونوں بالکل ایک جیسے ہیں دونوں ڈیموگرافی تبدیلی لانا چاہتے ہیں دونوں مذہبی بنیاد پر ہیں۔ اسرائیل اور مودی دونوں کی سوچ ایک ہی ہے فلسطین اور کشمیر دونوں کا ایک ہی نعرہ ہے حق خودارادیت اور اس نعرے کو ہم نے نہیں بلکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے جوڑا تھا یہ نعرہ قائد اعظم محمد علی جناح کا دیا ہوا نعرہ ہے قائد اعظم محمد علی جناح نے فلسطین کا ریزولوشن 23مارچ 1940کو دیا تھا اور فلسطین کے حوالے سے تھرو آوٹ سٹینڈ لیا تھا۔ ہم جس دن فلسطین کے حوالے سے اپنے موقف سے دستبردار ہوئے اس دن کیا حشر ہوگا آپ دیکھ لیں گے فلسطین ہمارا قبلہ اول بھی ہے ہم اس کے اوپر کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ سابق وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے اسرائیل کے خلاف 1973ء میں اپنی ائیر فورس استعمال کی تھی اسی طرح ائیر مارشل سابق صدر ایوب خان انہوں نے بھی 1967میں جورڈن ائیر فورس کے ایک پائلٹ جن کا نام سیف الااعظم بنگالی تھا جنہوں نے اسرائیل کے چار جہاز گرائے تھے جو آج بھی ریکارڈ پرہے۔ یعنی کے صدر ایوب اور ذوالفقار علی بھٹو وہ واحد پاکستانی سیاستدان تھے جنہوں نے فلسطین کے حوالے سے عملاً سٹینڈ لیا تھا نہ کہ خالی نعرے نہیں لگائے تھے بلکہ جو انہوں نے کہاں تھا وہ کر کے بھی دکھایا تھا۔ 1973وار کے بعد فلسطین لبریشن آرگنائزیشن جس کے چیئرمین ارفعہ تھے جس کی واحد سمٹ پاکستان کے شہر لاہور میں اپریل 1974میں پنجاب اسمبلی میں ہوئی تھی۔ آج بھی اگر آپ ایبٹ آباد میں (کاکول) جائیں تو فلسطین کیڈٹ جن کو آج بھی پاکستان ٹریننگ دے رہا ہے یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہے 1982میں جب بیروت ہوئی تھی یعنی کہ نکالا گیا تھا تو اس وقت تین اسلامی ممالک جنہوں نے ارفعات کو فوجی امداد کی آفر کی تھی جن میں پاکستان، ایران اور الجیریا شامل ہیں۔ مفتی امین الحسینی صاحب جن کے ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح کا بڑا دیرینہ تعلق تھا آج بھی اگر آپ جناح پیپرز کو پڑھیں جن کو ڈاکٹر زوار حسین زیدی نے ترتیب دیا تھا تو آپ کو ان میں بیشمار خطوط ملیں گے جو مفتی امین الحسینی اور حسن البنا نے قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھے تھے مفتی امین الحسینی تو قائد اعظم کے دور میں پاکستان میں بھی رہے تھے اور آزاد کشمیر کا دورہ بھی کیا تھا انہوں نے۔ قائد اعظم محمد علی جناح 1946ء میں ایک مختصر دورے پر لند ن گئے تھے تو راستے میں قاہرہ میں کچھ دیر قیام کیا تو قاہرہ میں مفتی امین الحسینی سے طویل نشست ہوئی تھی۔ فلسطین کے ساتھ ہمارا گہرہ رشتہ ہے کسی اوراسلامی ملک نے فلسطین کی وہ حمایت نہیں کی جو اول روز سے پاکستان کرتا آرہا ہے۔ اگر آج کہاں جائے کہ پاکستانی بڑے بے بس ہیں فلسطین کی مدد نہیں کرسکتے تو یہ کہنا غلط ہے بلکہ یوں کہاں جائے کہ آج تک جتنی مدد پاکستان نے فلسطین کی کی ہے وہ اور کسی نے نہیں کی ہمار ے ڈین این اے میں فلسطین اور کشمیر ہمیشہ سے رہا ہے اور رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں